ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
واپسی پرمدرسہ حنفیہ آرہ شاہ آباد کے ارکان نے صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند حضرت علامہ کشمیری سے ایسے مدرس کی فرمائش کی جو عربی تقریر و تحریر کی مشق کراسکے اور خصوصاً فن ِادب کی اُونچی کتابیں پڑھا سکے ۔حضرت موصوف دیوبند واپس ہوئے تو شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب کے مشورہ سے اس کے لیے والد ماجد رحمة اللہ علیہ کو منتخب کیا گیا ۔وہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال قیام فرمایا۔اول اول کچھ مشکلات پیش آئیں ۔پھر نہ صرف مدرسہ کے حضرات بلکہ شہرکے بھی بہت سے حضرات مانوس ہوگئے (والد صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک دفعہ وہاں کے واقعات کا ذکر فرمایا تو ا ر شاد فرمایاکہ پہلے پہل کچھ دشواریاں پیش آئیں مگر بعد میں اہلِ مدرسہ ایسے مانوس ہوئے کہ میری بات کو دلیل اور حجت کا درجہ دینے لگے) ۔صوبہ بہار کے دوسرے اضلاع کے علماء اور بزرگوں سے بھی تعارف ہوگیا ۔لیکن آپ خود اس مدرسہ سے خاطر برداشتہ رہے ۔جس کی وجہ یہ تھی کہ اس مدرسہ کو سرکاری ایڈ ملتی تھی ۔اور بہار یونیورسٹی کے درجات فاضل وغیرہ کی تیاری بھی یہاں کرائی جاتی تھی ۔یہ دونوں باتیں دارالعلوم دیوبند کے اصول کے خلاف تھیں ۔آپ کے اکابر جو دارالعلوم کے بااثر اور بارسوخ حضرات تھے انہوں نے اگرچہ وقتی طور پر آپ کا وہاں انتخاب فرمادیا تھا۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ عرصہ اگر وہاں او رقیام رہتا تو شمس الہدٰی میں پروفیسر ہو سکتے تھے ۔اور یہ بھی ممکن تھا کہ پروفیسر ہونے کے بعد پرنسپل بھی ہو جاتے ۔کیونکہ وہاں تعلقات کا دائرہ وسیع ہوگیا تھا اور وہاں کی پرنسپل شپ کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہ تھی ۔اس زمانہ میں مولانا محمد سہول صاحب پرنسپل تھے جو صرف فاضل دارالعلوم دیوبند تھے۔ اور دیوبند وغیرہ میں بااثر استاد رہ چکے تھے ۔ان کے پاس کوئی اور ڈگری نہیں تھی اور وہ بظاہر انگریزی کے حروف سے بھی واقف نہ تھے ۔لیکن والد صاحب رحمة اللہ علیہ کسی ایسے مدرسہ کے خواہاں تھے جو دارالعلوم دیوبند کی طرح سرکاری امداد اور سرکاری اثرات سے پاک ہو ۔ حسنِ اتفاق کہ جامعہ قاسمیہ (مدرسہ شاہی) مراد آباد میں ایک ایسے استاذکی ضرورت ہوئی جو درجات علیا کی تعلیم دے سکے۔اس جگہ کے لیے دیوبند کے اکابر خصوصاً حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے آپ کو تجویز فرمایااور سفارش فرمائی ۔حضرت مولانا اعزازعلی صاحب نے اس سفارش کی تائید فرمادی اور والد صاحب کو تحریر فرمایا کہ ''اب ایسے مدرسہ میں بھیجا جا رہا ہے جو علم کا مرکز ہے ''۔ نا مناسب نہ ہو گا اگر یہاں مراد آباد کے علمی وفکری حالات کا کچھ خاکہ پیش کردیا جائے : جامعہ قاسمیہ مرادآبادجسے عرفاً ''مدرسہ شاہی'' کہا جاتا ہے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کا قائم کردہ ہے اس کا نام حضرت نے ''مدرسة الغربائ'' رکھا تھا، جس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کی اپیل پر جس نے سب سے پہلے چندہ دیا تھا وہ کوئی نیک بخت مسافرتھا ۔پھر حضرت کی نسبت سے اس کا نام'' جامعہ قاسمیہ'' ہوگیا ۔اور چونکہ یہ مدرسہ شاہی مسجد میں تھا اس لیے اسے ''شاہی مدرسہ'' بھی کہا جاتا ہے ،مدرسہ میں جونام کندہ کرایا گیا ہے یہ