ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
کپڑے کی سی ہے جو اول سے آخر تک پھاڑ دیا گیا او ر بس سرے پر ایک دھاگے سے وہ جڑا رہ گیا اور یہ آخری دھاگا بھی بس عنقریب ٹوٹنا ہی چاہتا ہے (او ر یہ آخری دھاگا میرا دور ہے کہ جس کے ختم ہونے پر قیامت قائم ہو گی )۔ عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیف أنعم وصاحب الصور قد التقمہ وأصغی سمعہ وحنٰی جبھتہ ینتظر متی یومر بالنفخ فقالوا یا رسول اللّٰہ وما تأمرنا ؟ قال قولوا حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل۔ (مشکٰوة) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا ''میں کیونکر خوش اور بے غم ہو کر رہ سکتا ہوں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ صور والا فرشتہ صور کو اپنے منہ میں لیے ہوئے ہے اور اپنا کان اس نے لگا رکھا ہے اور اس کی پیشانی خمیدہ اور جھکی ہوئی ہے وہ انتظار کر رہا ہے کہ کب اس کو (دنیا کو ختم کر دینے کے لیے )صور کے پھونک دینے کا حکم ہو (اور وہ پھونک دے ۔یعنی جب مجھے اس واقعہ کا علم ہے تو میں کیسے اس دنیا میں اطمینان اور خوشی سے رہ سکتا ہوں ) ۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! تو ہمیں آپ کا کیا حکم ہے (ان کا مطلب یہ تھا کہ جب معاملہ اتنا خطرناک ہے توہماری رہنمائی فرمائیے کہ قیامت کی ہولناکیوں اور سختیوں سے بچنے کے لیے ہم کیا کریں؟)آپ نے ارشاد فرمایا : کہتے رہا کر و حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ (ہمارے لیے اللہ کافی ہے او ر وہی اچھا کارساز ہے)۔ (جاری ہے)