ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
مجلسِ عمل جو کہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے اس سے کسی اہم تبدیلی کی توقع کرنے میں عوام اسی وقت حق بجانب ہو سکتے ہیں کہ جب وہ ان جماعتوں کو قومی اسمبلی میں کم از کم ستر اسی فیصد سیٹوں پر کامیاب کرائیں۔ افسوس کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب، اس کے بعد سندھ نے اس موقع پر اپنے بڑے پن کا احساس نہ کیا اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی غیرمذہبی اور امریکہ نوازپارٹیوں کو ووٹ دے کر نا صرف ملک و قوم کے ساتھ دغا کیا بلکہ آخرت کے اعتبار سے بہت بڑے گناہ کا ارتکاب بھی کیا ۔ پاکستان کو اگر فلاحی مملکت بنانا ہے تو قومی اسمبلی میں مذہبی جماعتوں کو واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب کرانا ہوگا جو کہ عوام کی ناصرف ذمہ داری ہے بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔ مذہبی جماعتوں کی موجودہ محدود کامیابی پر بھی مغرب والے بہت تشویش میں مبتلا ہیںجس کا اندازہ ٢٠ اکتوبر کے نوائے وقت میں شائع ہونے والی اس خبر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس کو ہم قارئین کے لیے بعینہ شائع کر رہے ہیں : امریکہ و برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت کے بارے میں اپنے تحفظات سے حکومت پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے۔ اس طرح متحدہ مجلسِ عمل کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے اُمید وار مولانا فضل الرحمن کی امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔متحدہ مجلسِ عمل کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق امریکہ و برطانیہ کے تحفظات سے حکومت پاکستان نے متحدہ مجلسِ عمل کو آگاہ کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس بارے میں واضح موقف جنرل ٹومی فرینکس کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران سامنے آیا اور امریکہ کی جانب سے پاک افغان سرحد پر امریکی فوجوں کی تعیناتی دراصل حکومت پاکستان کے لیے واضح پیغام تھا کہ امریکہ پاکستان کی جانب سے افغان پالیسی میں ذرا سی بھی تبدیلی برداشت نہیں کرے گا ۔متحدہ مجلس عمل کے ذرائع کے مطابق امریکہ و برطانیہ کے سفارتکاروں نے خصوصاً مولانا فضل الرحمن سے ملا قات کے دوران ان سے پاکستان میں موجودامریکی اڈوں اور القاعدہ کے خلاف جاری آپریشن کے حوالہ سے بہت سے سوالات کیے اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اس حوالہ سے دئیے جانے والے جوابات سے وہ مطمئن نہیں ہوئے ۔اسی دوران صدر جنرل مشرف کے قریبی ساتھی نے گزشتہ روز متحدہ مجلسِ عمل کے ایک مرکزی نائب صدر کو