ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
جو تشنہ لب ضرور ت مند ہوتے ہیں ۔اسی طرح تم بھی اگر دولت مند ہو تو ایک چشمہ ہو ، ایک نہر ہو ۔ اپنی پیاس بھر اپنے پاس رکھو باقی سب اللہ کی مخلوق پر صرف کردو ۔ جس کی زندگی کا چمن مُرجھا رہا ہے کیونکہ یہ مخلوق ''عیال اللہ '' ہے۔ مالک کی دی ہوئی نعمت اس کی عیال پرصرف ہونی چاہئے ۔ایمان کا تقاضا یہی ہے ۔کھیت سُوکھ رہا ہوا ور تم چشمہ کے دہانہ پر پتھر کی چٹان رکھ دو یہ ایمان کی بات نہیں ہے ۔ بلکہ بہت بڑا ظلم ہے اور پرلے درجے کی سنگدلی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الذین یکنزون الذہب والفضة ولا ینفقونھا فی سبیل اللّٰہ فبشر ھم بعذاب الیم۔ (سورة توبہ آیت :٣٤ پارہ :١٠) ُُُُ'' جو لوگ کنز کرتے ہیں (جوڑ جوڑکر رکھتے ہیں ) سونے اور چاندی کو اور راہِ خدا میں اس کو خرچ نہیں کرتے ۔ اُن کو سُنا دو خبر درد ناک عذاب کی ۔ جس دن تاپا جائیگا اس خزانے کو نارِ جہنم میں پھر اُس سے داغا جا ئے گا ان کی پیشانیوںاور پہلوئوں کو اور کہا جائے گا یہ ہے وہ جس کو تم نے اپنے لیے جمع کرکے اور جوڑ کر رکھا تھا۔پس چکھو اپنے جوڑ ے ہوئے کو۔'' آنحضرت ۖ نے فرمایا : لیس بالمؤمن الذی یشبع وجارہ جائع (ترمذی شریف) وہ مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر لے اور پڑوسی بھوکا رہے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا ۔ یا رسول اللہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : افشا ء السّلام واطعام الطعام والصلوة والناس نیام سلام کا رواج عام کرنا ،کھانا کھلانا اور اس وقت نماز پڑھنا کہ لوگ سو رہے ہوں (یعنی تہجد کی نماز پڑھنا ) مگر اللہ تعالی کا فضل وکرم اور اُ س کا احسان ہے کہ اُس نے یہ حکم نہیں دیا کہ تمہارے جچے تلے خرچ سے جو فاضل بچے ،وہ سب راہ خدا میں خرچ کردو ، وجہ یہ ہے کہ جس خدائے ذوالجلال نے دین اسلام سے ہمیں نوازا، وہ صرف حاکم ہی نہیں ہے بلکہ وہ رب او ر پرور دگار بھی ہے ۔وہ ہماری فطرت او ر اس کی صلاحیتوں یا کمزوریوں سے واقف ہی نہیں ہے بلکہ وہ خالق اور صانع ہے جس نے انسان کو انسان بنایا ۔ اس کی فطرت خاص طرح کی رکھی اُس میں خاص خاص صلاحیتیں پیداکیں ۔وہ خوب جانتا ہے کہ دولت کی محبت انسانی فطرت ہے۔یہی سبب ہے کہ انسان ہر طرح کی مصیبتیں جھیلتا ہے۔راحت و آرام قربان کر دیتا ہے او ر اپنی تمام صلاحیتیں اور قاقبلیتیںکام میں لا کر دولت حاصل کر تا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ بال بچوںکی محبت تقاضا ء فطرت ہے ۔ انسان اپنے آپ سے زیادہ اپنی اولاد کی رفاہیت اور خوشحالی چاہتا ہے ۔ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ جتنی ترقی اُ س نے کی ہے ۔اس سے بڑھ چڑھ کر اُ س کی اولاد ترقی کرے ۔