ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
لا تفعلو ا ۔ (ابو دا ود) حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام حیرہ میں پہنچا تو میں نے وہاں کے باشندوں کو دیکھا کہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے دل میں سوچا کہ اللہ کے رسول (تو زیادہ عظمت والے ہیںاور زیادہ قابل تعظیم ہیںاس لیے وہ ) اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کو سجدہ کیا جائے ۔ پھر جب میں رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کہ میں مقام حیرہ میں گیا تھا ۔میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپ تو زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے آپ ۖ نے مجھ سے فرمایا یہ بتائو کہ اگر تم میری قبر پر گزرتے تو کیا تم اس کو بھی سجدہ کرتے ۔میں نے جواب دیا کہ نہیں (کیونکہ دین میں اس سے منع کیا گیا ہے ) آپ نے فرمایا تو پھر اب بھی مت کرو(کیونکہ سجدہ انتہائی درجے کی تعظیم ہے جو انتہائی درجے کی عظمت والے ہی کے لائق ہے ۔اس لیے وہ عبادت ہے اور عبادت کے لائق بھی صرف وہ ذات ہے جو ہر حال میں عبادت کی حقدار ہو اور وہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ عن عائشة قالت من اخبرک ان محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلم الخمس التی قال اللّٰہ تعالی ان اللّٰہ عندہ علم الساعة فقد اعظم الفریة ۔ (بخاری ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ محمد ۖ ان پانچ باتوں کو جانتے تھے جن کے بارے میںاللہ تعالی نے آیت ان اللّٰہ عندہ علم السّاعة ( سورہ لقمان کی آخری آیت ) میں فرمایا ہے تو اس نے بڑ ا زبردست بہتان باندھا۔ انبیاء کی عالم برزخ میں حیات کی کیفیت : عن انس قال قال رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون ۔ (بیہقی) حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں (اور اُن کو برزخی حیات حاصل ہے جس کی توجیہ یہ ہے کہ اگرچہ ان کی ارواح مبارکہ کا ٹھکانا اعلی علیین ہے لیکن ان کا قبروں میں موجود اجسام مبارکہ کے ساتھ قوی تعلق ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ عالم برزخ میں ) نماز پڑھتے ہیں ۔