ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
اس کا کچھ ہرج نہیں ۔دھونا واجب نہیں لیکن اگر دھولیں تو بہتر ہے ۔ نجاستوں کاحکم : نجاست غلیظہ میں سے اگر پتلی اور بہنے والی چیز کپڑے یا بدن پر لگ جائے اور وہ اگر پھیلائو میں ایک درہم یعنی ہتھیلی کے گہرائو (پونے تین سم قطر )کے پھیلائو یعنی5.94مربع سم کے رقبے کے برابر یا اس سے کم ہوتو معاف ہے یعنی اس کو دھوئے بغیر اگر نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی لیکن نہ دھونا اور اسی طرح نماز پڑھتے رہنا مکروہ اور بُرا ہے۔ اور اگر مذکورہ پھیلائو سے زیادہ ہو تو وہ معاف نہیں اُس کو دھوئے بغیر نماز نہ ہو گی اور اگر نجاست غلیظہ میں سے گاڑھی چیز لگ جائے پاخانہ اور مرغی وغیرہ کی بیٹ تو اگر وزن میں ایک درہم یعنی ساڑھے چار ماشہ یعنی 4.35 گرام یااس سے کم ہو تودھوئے بغیر نماز درست ہے اگرچہ اس کا پھیلائو کم ہو یا زیادہ ہو او ر اگر اس سے زیاد ہ وزن لگ جائے تو دھوئے بغیر نماز درست نہیں اگر نجاست خفیفہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو جس حصے یا عضو میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی سے کم میں لگی ہو تومعاف ہے اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ۔یعنی اگر آستین میں لگی ہے تو آستین کی چوتھائی سے کم ہو۔ اگر کلی میں لگی ہے تو اس کی چوتھائی سے کم ہو۔ اگر دوپٹہ میں لگی ہے اس کی چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے ۔اسی طرح اگرنجاست خفیفہ ہاتھ میں لگی ہو تو ہاتھ کی چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے اسی طرح اگر ٹانگ میں لگ جائے تو اس کی چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے ۔غرضیکہ جس عضو میں لگے اس کی چوتھائی سے کم ہواور اگر پورا چوتھائی ہو تو معاف نہیں اور اس کا دھونا واجب ہے یعنی دھوئے بغیر نماز درست نہیں۔ مسئلہ : کپڑے میں نجس تیل لگ گیا اور ہتھیلی کے گہرائو (پونے تین سم قطر کے پھیلاؤ ) سے کم ہے لیکن وہ ایک دن میں پھیل کر زیادہ ہو گیا تو جب تک پونے تین سم قطر کے پھیلاؤسے زیادہ نہ ہو معاف ہے اور جب بڑھ گیا تو معاف نہیں رہا۔اب اس کا دھونا واجب ہے ۔دھوئے بغیر نماز نہیں ہو گی ۔ نجاست لگی چیزوں کے پاک کرنے کا طریقہ : جو چیزیں خود تو نجس نہیں لیکن نجاست کے لگنے کی وجہ سے ناپاک ہو گئیں ان کے پاک کرنے کے یہ طریقے ہیں : (١) دھونا : پانی اور پانی کی طرح جو چیزپتلی اور پاک ہو اس سے نجاست کا دھونا درست ہے جیسے عرق ِگلاب ،تربوز کا پانی سرکہ وغیرہ یعنی جن سے کپڑا بھگو کر نچو ڑیں تو نچڑ جائے ۔مستعمل پانی سے بھی نجاست دور کرنا جائز ہے ۔