ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
مسلمانوں کی حکومتوں کے زوال کے اسباب : مسلمانوں کی حکومتوں کے زوال کے اسباب کیا ہیں ؟ زوال کے اسباب میں بڑا سبب جو دو لفظوں میں کہاجاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ عمل نہیں کیا۔ یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ اسلام پر عمل بھی کیا ہو اور زوال بھی ہواہو ،یہ دو چیزیں کہیں جمع نہیں ہوئیں جب اسلام پر عمل کیا تو ترقی ہوئی عروج ہوا جب اسلام پر عمل چھوڑ دیا تعلیمات سے غفلت ہوئی تو پھر زوال آیا۔ اسلام سے غفلت کا نتیجہ : اسلامی تعلیمات سے غفلت ہوئی تو انسان بجائے اس کے کہ دوسروں کو اسلام کی دعوت دے اپنے گھر بیٹھ جائے گا یا آپس میں جھگڑنے لگ جائے گا اور بے معنی جھگڑے تو اختلاف بھی پیدا ہو گا سازشیں بھی ہوں گی۔ پاکستان بناتے وقت دو قسم کی سوچ : تازہ بات آپ دیکھ لیجئے کہ پاکستان بنا ''دُنیا برائے دُنیا'' اور ''دُنیا برائے آخرت'' دونوں چیزیں اُس میں جمع تھیں ۔دُنیا برائے دُنیا اُن لوگوں کا مقصد تھا جنھوں نے سوچا ہم ایک حکومت بنالیں گے وہاں ہماری ہی تجارت ہوگی ہماری ہی زراعت ہوگی ہماری ہی حکومت ہو گی ہماراغلبہ ہو گا ہم جو چاہیں گے کریں گے ایک روپے کی چیز چار روپے میں بیچیں گے سو پرسنٹ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے اس سے بہت زیادہ نفع لیں گے تو ایسے لوگ جو صاحبِ اغراض تھے اور بہت بڑے بڑے جاگیردار تھے یا بڑے بڑے تاجر تھے ان لوگوں کا نظریہ یہ ہوا کہ اس طرح سے ہم اپنا علاقہ لیں اور اس میں ہم یہ کریں ۔یہ'' دُنیا برائے دُنیا ''ہوگئی۔ دوسری چیز تھی کہ ترک دُنیا برائے آخرت تو ایسے لوگ بھی تھے اس میں ،عوام میں ایسے لوگ تھے کہ جن کو کوئی لالچ نہ تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہاں اسلام ہوگا وہ صرف اسلام کے نام پر آئے اس خطہ میںاسلامی حکومت ہوگی تو اس لالچ میں انھوں نے آخرت کے لیے قربانیاں دیں اور سچ مچ جب پاکستان بنا تھا تو لوگوں کا حال یہی تھا کہ اُن سے کوئی اور قربانی مانگی جاتی تو وہ وہ بھی دے دیتے لیکن جو صاحب اغراض حکام تھے یا تجار تھے یا زمیندار تھے اُن لوگوں کا غلبہ رہاتو وہ دُنیا برائے دُنیا وہ لوگ یہی فلسفہ جانتے تھے ۔ دین برائے دُنیا : اور ایسا طبقہ بھی ہے کہ ''دین برائے دُنیا'' استعمال کر لیتے ہیں ۔دین کونقصان چاہے ہو جائے دُنیا کا نفع ہو