ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
حاصل مطالعہ ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب) اِنَّمَاا لْاَعْمَالُ بِالنِّیََّاتِ : مذکورہ عنوان ایک حدیث شریف کا ٹکڑا ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا مدار نیتوں پر ہے مطلب یہ ہے کہ عمل کا ثمرہ نیت پرمرتب ہوتا ہے ،انسان جس نیت سے عمل کرتا ہے ویسا ہی اس کو اس کا ثمرہ ملتا ہے۔ اچھی نیت ہوتی ہے تواجرو ثواب ملتا ہے اور اگر بُری نیت ہو تی ہے تو عذاب و عقاب ہوتا ہے۔کتاب و سنت اور تاریخ میں نیتوں پر مرتب ہونے والے بہت سے عجیب و غریب واقعات ملتے ہیں جو عبرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس حدیث شریف کے مؤید بھی ہیں ۔ذیل میںچند واقعات ذکر کیے جاتے ہیں شاید ہمارے لیے عمل کا باعث بن جائیں ۔ ایک بنی اسرائیلی کے صدقہ کرنے کا واقعہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ''رسولِ اکرم ۖنے فرمایا : (ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں سے ) ایک شخص نے (اپنے جی میں یا اپنے کسی دوست سے )کہاکہ میں (آج رات )خدا کی راہ میں کچھ مال خرچ کروں گا،چنانچہ اس نے (اپنے قصدو ارادہ کے مطا بق )خیرات کے لیے کچھ مال نکالا( تاکہ کسی مستحق کو دے دے )اوروہ مال اُس نے ایک چور کے ہاتھ میں دیدیا (اُسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ چور ہے اور خیرات کے مال کا مستحق نہیں ہے )جب صبح ہوئی (اور لوگوں کو الہام ِ خدا وندی کے سبب یا خود اس چور کی زبانی معلوم ہوا تو ازراہِ تعجب ) لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج رات ایک چور کو صدقہ کامال دیا گیا ہے (جب صدقہ دینے والے کو یہ صورتِ حال معلوم ہوئی تو) وہ کہنے لگا اے اللہ تیرے ہی لیے تعریف ہے (باوجودیکہ)صدقہ کا مال ایک چور کے ہاتھ لگا ۔پھر کہا کہ (آج رات) پھر صدقہ کروں گا (تاکہ وہ مستحق کو مل جائے )چنانچہ اس نے صدقہ کی نیت سے پھر کچھ مال