ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
قید ہو کر آئے تھے تو بے چین تھے ان کی بے چینی سے رسول اللہ ۖ کو بے چینی رہی تو ان کے بندھن جو تھے وہ ہلکے کر دئیے گئے اور صحابہ کرام نے چاہا کہ ان کا جو فدیہ ہے وہ چھوڑ دیں تو آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ایک درہم بھی مت چھوڑنا اس میںکوئی تخصیص برتنے کی ضرورت نہیں ۔وہ آئے تھے کفار مکہ کی طرف سے اور پکڑے گئے تھے گرفتار ہو گئے تھے ۔وہ ایک صحابی اور آثار دیکھے جیسے کہ طبیعت پر کوئی بات ناگوار گزری ہوپتا چلا یا اُنہوں نے کہ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ جو ناگوار گزری ہو تو معلوم ہوا کہ وہ بہت پکا مکان گبندنما بنا رہا تھا۔ادھر سے گزر تے ہوئے دریافت فرمایا تھا کہ یہ کیا ہے کس کا ہے ؟ توصحابی کو خیال ہوا کہ شاید یہ وجہ ہو تو وہ مکان گرا کر پھر آئے تو آثار دیکھتے تھے چہرہ مبارک کے تو جب صحابہ کرام نے اتنا بڑا اثر دیکھا تو عرض کیا کہ ہم اسے چھوڑ دیں تو جناب رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ میرے پاس لانے سے پہلے تم نے ایسا کیوں نہیںکیا ۔میرے پاس آنے سے پہلے پہلے کر لیتے چھوڑ دیتے اُسے ۔ایک آدمی نے چوری کی ہے گھر والے جمع ہو گئے دوسرے گھر والے بھی تیسرے گھر والے بھی برادری کے چند افراد چند گھرانے جمع ہو گئے انھوں نے اسے لعنت ملامت کی اور وہ کیس وہیں کا وہیںرہ گیا عدالت تک نہیں گیا تو عدالت یہاں دخل دینے تو نہیں آئے گی۔ آج بھی یہی ہے اسی طرح سے اور کوئی بڑا کیس ہوگیا چلو مال بھی واپس کر ادیتے تو بھی یہی ہے کہ کوئی عدالت تک کیس نہیں لے گیاتو کچھ بھی نہیں۔ موجودہ عدالتی طریقہ : اب عدالت تک کیس پہنچ بھی جائے پھر یہ اختیار ہو جج کو کہ چاہے تو اسے سزا دے اختتام عدالت تک کی کہ جب تک میں یہاں بیٹھا ہوں جب تک تم بھی سزا میںہو یہی قید ہے تمہاری تا برخاست اجلاس اور چاہے وہ اُسے سزا دے دے چھ مہینے کی چاہے وہ سزا دے دے سال کی اور چاہے وہ اس کے ساتھ جمع کردے دس کوڑے بھی اور پھر یہ کہہ دے کہ دس ہزار جرمانہ بھی تویہ کیا ہورہا ہے تو یہ کوئی چیز نہیں ہے یہ تو انسان کی بنائی ہوئی ہے اس لیے ایسے ہو رہا ہے ۔ اسلامی طریقہ : اب دوسری چیز سمجھئے وہ دین کی ہے وہ وہ ہے جو جناب رسول اللہ ۖ نے بتلائی سمجھائی کہ جب تک کیس پیش نہ ہو تو پھر تمہیں اختیار ہے ہمارے پاس لائویا نہ لائو لیکن جب ہمارے سامنے کیس آگیا تو ہمارا اختیاربھی ختم ہو گیا ہم بھی کچھ نہیں کر سکتے ہم کوئی چیز نہیںہیںہم صرف خدا کا حکم نافذ کرنے والے ہیں بس اس کے سوا ہم اپنی منشاء سے کوئی دخل نہیں دے سکتے اتنا دیکھیںگے کہ گواہ صحیح ہیں گواہوںپرجرح کر سکتے ہیں گواہ بھی قابل اعتماد ہیں نہ ان کی سمجھ میں کمی ہے