ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
جج کے اخلاقی فرائض : ایک مثال دینے لگے کہ دیکھیں ایک عورت میرے پاس آئی اور اُس نے کہا کہ میرے خاوند کا انتقال ہو گیا اور مجھے اس کی نوٹ بُک سے یہ معلوم ہواکہ ا تنے اتنے روپے ان ان لوگوں کی طرف ہیں تو انھوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی گواہ ہے تو اس نے کہا کہ گواہ تو کوئی نہیں بس ان لوگوں کی طرف ہیںتو جب گواہ کوئی نہیں تو قاضی کا کام تو ختم ہو گیا اس سے آگے وہ پھر کچھ نہیں کر سکتا گواہ ہیں تو ٹھیک ہے گوا ہ نہیں ہیں تو پھر یہ ہے کہ ان لوگوں کو بلا کر ان سے پوچھا جائے گا اور ان سے قسم لی جائے گی اگر وہ قسم نہ کھائیں تو پیسے دیں اور قسم کھالیں گے تو چُھوٹ جائیں گے پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا پھر خدا کے حوالے۔ اللہ کا کام (انتقام) تو آپ سارا دیکھ ہی رہے ہیں کیا کیا ہوتا ہے کس کس طرح ہوتا ہے ۔جہاں انسان عاجز آ جاتا ہے پھر وہاں خدا کی قدرت نمایاں ہوتی ہے وہ کہنے لگے کہ میںنے ان کو نوٹس بھیج دیے بلالیا اور وہ آئے پیش ہوئے اور ہر ایک نے انکار کر دیا ،انکار کر دیا تو قسم لینے سے پہلے میںنے ان سے کہا کہ میں ذرا عدالت سے فارغ ہو جائوں تو پھر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ اب عدالت کاکام اتنا ہی تھا کہ ان سے قسم لے لیتے اور چھوڑدیتے لیکن ایسے نہیں ہوا انہوں نے اپنا کام پورا کیا اُس کے بعد پھران سے الگ بات کی۔ ترغیب و ترہیب : ان سے کہا کہ بھئی دیکھیں کہ ایسے ہواہے کہ ان کے شوہرکا انتقال ہو گیا ہے یہ بیوہ ہیں ان کے گزر اوقات کی کوئی سبیل نہیں ہے ،اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ آپ میں سے ہر آدمی یہ سوچے کہ اگر اُس کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو وہ اپنے لیے کیا پسند کرے گا۔ دوسرے یہ کہ خدا کے ہاں سب نے پیش ہونا ہے آپ وہاں کا خیال کریں اگر آ پ کی طرف پیسے ہیں تو وہاں آپ کیا جواب دیں گے تو انھوںنے کہا کہ ہمیں کچھ مہلت دیجئے ہم اپنے حسابات چیک کریں تو انھوں نے ان کو اگلی تاریخ ایک ہفتہ دے دیا کہ ایک ہفتہ بعد فلاں تاریخ کو آپ لوگ آجائیں اس عورت کو بھی بھیج دیا پھر وہ لوگ اگلی تاریخ پرآئے ۔وہ کہتے ہیں کہ جتنا اس کی نوٹ بُک میں لکھا ہوا تھا اُ س سے زیادہ ہر ایک کے پاس رقم تھی اُس نے نوٹ بُک میں کچھ لکھا ہوگا اورکچھ لکھنے سے رہ بھی گیا ہو گا تو ہر ایک نے وہ بتایا جو اُس سے زیادہ تھا جتنا اُس نے نوٹ بُک میں لکھا ہوا تھا اور انھوں نے وہ دے دیا ۔ اب وہ کہنے لگی کہ اس میں کسی سے دُشمنی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یعنی ہم اگر اپنی عدالت کے حقوق سے آگے بڑھ کر بھی کوئی بات کرتے ہیں تو وہ بھی اس انداز سے کرتے ہیں تو اس انداز سے بات کرنے میں دُشمنی کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیںہوتا تو اس طرح کی چیزیں جو اسلامی نظام کی ہیں وہ نہیں رہیں۔نہیں رہیں تو