ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
قسط : ٤ ،آخری فرقہ واریت کیا ہے ؟اور کیو ں ہے؟اور سدباب کیا ہے؟ حضرت مولانا منیر احمد صاحب استاذ الحدیث جامعہ اسلامیہ باب العلوم کہروڑ پکا ازالہ شبہات : جب بات یہاں تک پہنچی کہ فرقہ واریت سے بچنے اور شیطنت کی اس دلدل سے نکلنے کے لیے کتاب وسنت کی اس تحقیق و تشریح کی پابندی کرائی جائے جو اُمت میں متواتر و معمول بہ ہے ۔ اس کے لیے حکومت کو جبر و تشدد کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی گریز نہ کرے ۔اس سے کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیںہم ان کا ازالہ کردینا ضروری خیال کرتے ہیں : (١) دین میں جبر نہیں لا اکراہ فی الدین آپ کسی کو اس متواتر تحقیق پر مجبور کیوں کرتے ہیں ؟ جواب : اس آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ کفارکو جبرادین میں داخل نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ برسرپیکار کفار کو مسلمان فوج کی طرف سے تین چیزوں کا اختیار دیا جاتا تھا۔ اسلام یا اسلامی حکومت کی ماتحتی اور جزیہ یا تلوار ،لیکن اسلام میں داخل ہونے کے بعد کتاب و سنت میں جدید تحقیقات و تشریحات کرکے دین میں تحریف کرنے اور فرقہ واریت پیدا کرنے کی اجازت نہیں ،حدیث شریف میں ہے من بدل دینہ فاقتلوہ یعنی جوشخص متواتر اور متوارث طریقہ سے حاصل ہونے والے دین ِاسلام کو تبدیل کرکے فتنہ اورفرقہ واریت پیدا کر دے اور پھر اس پر مصِر ہو جائے تو حکومت اس کو قتل کر دے۔ دین اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اتحاد ویکجہتی کا تقاضا یہی ہے لیکن ایسے فتنہ پرداز کو عوامی سطح پر قتل کرنے کا اور قتل کرکے افراتفری اور بدامنی پیدا کرنے کا کسی کو اختیا ر نہیں البتہ اس کو قتل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور اگر حالات کی نزاکت کی وجہ سے قتل مناسب نہ ہو تو کوئی دوسری سزا بھی دی جا سکتی ہے جس سے وہ فتنہ اور فرقہ واریت ختم ہو جائے۔ (٢) اگر جدید تحقیق نہیں کر سکتے تو جدید مسائل کیسے حل ہوں گے؟