ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
سمجھ دار ہیںمسائل سے بھی واقف ہیں متقی بھی ہیں ،واقعی ایسے ہوا واقعی اُنہوں نے دیکھا یا مجرم اقرار کے لے تو حاکم کیا ہے حاکم پھر کچھ نہیں ہے وہ خدا کا حکم نافذ کرنے والا ایک شخص ہے بس اُسے اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں نہیں کرتا جب گواہ بھی موجود ہیںپھروہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نہیں نافذ کر وں گا پھر اُسے نافذ کرنا پڑے گا تو طبیعت مبارکہ پراتنی گرانی ہوئی کہ چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا بالکل جیسے سفید ہو ۔صحابہ کرام نے عرض کیا آپ نے فرمایا کہ یہاں آنے سے پہلے کیوں تصفیہ نہیں کر لیا یہاںآنے سے پہلے ایسا کر لیتے تو یہی آج بھی ہے یہی اس وقت بھی تھا کہ قاضی جو چاہے عدالت میں فیصلہ دے دے اُسے اختیار ہے یہ بھی کر سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے یہ نہیں ہے۔ حاکم خدا کا نمائندہ ہوتا ہے : یہ حدود جوہیں ان میں یہ ہے کہ وہ خدا کا نمائندہ ہے وہ خدا کا حکم ظاہر کرے گا خدا کا حکم نافذ کرے گا ۔کیا یہاں یہ صورت کبھی آئی ہے آج تک اگر آج تک کبھی نہیں آئی ہے ایسی صورت اور عدلیہ اس قسم کی قائم نہیں ہوئی ہے تو یہ اسلامی حکومت نہیں ہوئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی حکمرانی ہے ضرور ،ٹھیک ہے حاکم مسلمان ہیں لیکن یہ کہ حکومت اسلامی ہو اسلامی حکومت تو جب ہوتی ہے جب یہ صورت بنے تو اسباب ِزوال میں تو ہمارے یہی ٹھہرے گا کہ ہم نے اسلام پر عمل نہیں کیا اس وجہ سے ایسے ہوا ہے۔ مدنیہ منورہ کے قاضی سے ملاقات : ہمارے ایک دوست ہیں مدنیہ منورہ میں شیخ عطیہ سالم وہ پہلے تو تھے ١٩٦٤ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی کے ایک شعبہ کے انچارج کچھ اور کام ان کے ذمہ تھے مزید اور یہ ا ن کاابتدائی دور تھا اُس کے بعد وہ ١٩٧٠ء میں مدنیہ شریف کے قاضی تھے میں اُن سے ملا تو انھوں نے مجھے یہ کہا کہ کل عصر کے بعد چلیں گے تو اگلے دن عصر کے بعد وہ مجھے لے گئے ذوالحلیفہ ،بیر علی اب کہلاتا ہے وہ وہاں لے گئے ۔ ذوالحلیفہ کے پانی کی برکت : وہاں اُنھوںنے کہاکہ دیکھیں ایسی صورت ہے کہ یہاں کا پانی بڑا اچھا ہے اور یہاں کے پانی سے پتھر ی ٹوٹ جاتی ہے اور فلاں فلاں آدمی ہے اُن کو خدا نے شفا ء دی ان کی پتھری ٹھیک ہو گئی ۔میں بھی یہ ٹیوب ویل لگوا رہا ہوں توٹیوب ویل انھوں نے تھوڑا سا چلایا ہاتھ سے بور میں جیسے نل لگا لیتے ہیں ہاتھ کا تو اُس میں سے بالکل گدلا پانی آیا ایسا جیسے سیلاب