ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
ایک صحابی نے آپ ۖ سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ ۖ نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی ۔(مشکٰوة ص ٢٤٢) حدیث میں ہے کہ ایک انصاری نے آنحضرت ۖ کے سامنے دست سوال دراز کیا۔ آپ ۖ نے ان سے پوچھا تمہارے پاس کوئی سامان ہے ؟جواب دیا ایک کمبل اور ایک پانی پینے کا پیا لہ ہے۔ فرمایا اسے لے آئو وہ لے آئے ۔آپ ۖ نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ اس کو کون خریدتا ہے۔ ایک صحابی نے اس کی قیمت ایک درہم لگائی۔ آپ نے فرمایااس سے زیادہ میں کوئی قیمت دے سکتا ہے ؟ایک دوسرے صحابی دو درہم قیمت دینے پر تیار ہوگئے ۔آپ نے یہ چیزیں ان کے حوالہ کیں اور دو درہم ان سے لے کر انصاری کو دے دئیے کہ ایک درہم کی کلہاڑی لے کر آئو اور ایک درہم کا غلہ خرید کر گھر میں رکھ دو۔انہوں نے اس کی تعمیل کی جب وہ کلہاڑی لے کر آئے اور ایک درہم کا غلہ خریدکر گھر میں رکھ دیا تو حضو ر ۖ نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں دستہ لگایا اور ان کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ جائو ا س صفحہ نمبر 78 کی عبارت سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو ،پندرہ دن تک تم میرے پاس نہ آنا ،پندوہ دن کے بعد جب وہ حاضرخدمت ہو ئے تو پوچھا کیا حال ہے؟ عرض کیا ا س سے میں نے دس درہم کمائے ہیں، جن میں سے چند درہم کے کپڑے خرید ے اور چند درہم سے غلہ وغیرہ خرید اہے۔ آپ نے فرمایا کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اُٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے ۔ (مشکٰوة ص ١٦٣) آنحضرت ۖ نے ایک دفعہ خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام سے الگ رہتے ہیں جس کو میں خود کرتا ہوں خدا کی قسم میں تم سے زیادہ خدا کا خوف رکھتاہوں ۔ (اسلام کے معاشی نظریے ج ١ ص٢١٤) اس واقعہ میں ان مسلمانوں کے لیے سبق ہے جو اپنے ہاتھ سے کام کرنا عزت کے خلاف سمجھتے ہیں ۔فاروق اعظم کے عہد خلافت میں ایک توانا تندرست نوجوان یہ کہتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہوا کہ جہاد کرنے میں کون میری مد د کرتا ہے ۔حضرت عمر فاروق نے اس کو اپنے پاس بلایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اپنی زمین میںکام لینے کے لیے اس شخص کو کون مزدوری پر رکھتا ہے۔ ایک انصاری بولے میں یا امیرالمؤمنین ۔آپ نے پوچھا تم اس کو ماہانہ کتنی اجرت دو گے انہوں نے اجرت بتائی ،فرمایا اس کو لے جائو اور کام لو۔ چند مہینے بعد حضرت عمر نے انصاری سے پوچھا کہ مزدور کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے جمع شدہ اجرت کے ساتھ میرے پاس لائو۔چنانچہ و ہ مزدور درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی کے ساتھ آپ کے سامنے لایا گیا ،آپ نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ لویہ تھیلی اب جی چاہے جہاد کرو یا جی چاہے گھر بیٹھو ۔ (کنز العمال ج٢ ص ٢١٧) اسلام نے جو ذہنیت پیدا کی تھی اس کی وجہ سے اس زمانہ میں کوئی شخص بھی بے کاررہنا پسند نہیں کرتاتھا چنانچہ صحابہ میں بہت کم ایسے لوگ تھے جو کسی نہ کسی پیشہ سے وابسطہ نہ ہوں۔آنحضرت ۖنے صحابہ میں یہ عام جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ وہ کسی پر اپنا معاشی بار ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ (اسلامی قانون محنت ص١٤٠)