ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
آپ کی اُمت روزانہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکتی او رمیں آپ سے پہلے لوگوں کا تجرنہ کر چکا ہوں اوربنی اسرائیل کے ساتھ بڑی کوشش کر چکا ہوں لہٰذا آپ پھر جائیں اور اپنے رب سے (ابھی مزید )تخفیف کی درخواست کیجیے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے باربار درخوا ست کی اب اور زیادہ درخواست کرتے مجھ کو شرم آتی ہے لہٰذا اب میں اس پر راضی ہوں اور اس کو قبول کرتا ہوں۔اس کے بعد آپ نے فرمایا جب میں آگے بڑھا تو ایک منادی نے آوازدی اب میں اپنا آخری حکم جاری کرچکا اور اپنے بندوں پر جو تخفیف کرنی تھی کرچکا۔ فا ئد ہ : (١) پچاس نمازوں کا سن کر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پھر تو دنیا کا کوئی کام ہی نہ کرسکتے تھے بس ہر وقت مصلے پربیٹھے رہتے۔یہ خیال بہت ہی غیرمناسب ہے کیونکہ اول تو اگر ہمیں اللہ تعالی یہی حکم دیتے کہ بس روکھی سوکھی کھاکر اور موٹا جھوٹا پہن کر سارا وقت عبادت ہی میں خرچ کرو تو یہ بھی ناجائز نہ ہوگا کیونکہ ہم اللہ تعالی کے بندے اور غلام ہیں دوسرے یہ بھی تو ضروری نہیں کہ اس وقت موجود ہ پانچ نمازوں کی طرح کی ترتیب اور طریقہ ہوتا ۔ہو سکتا ہے کہ بہت مختصر سی نماز مثلًا صرف ایک یا دو رکعتوںپر مشتمل نماز کا حکم دیا جاتاجو آدمی جلدی سے ادا کر لیتا۔ (٢) پچاس کا کہہ کرپھر تخفیف کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں مثلًا (الف ) اللہ تعالی کا اُمت پر احسان ظاہر ہونا۔ (ب) رسولوں کی اُمت کے حال پر شفقت کا ہونا۔ عن عبدالرحمن بن عائش قال قال رسول اللّٰہ ۖ رأیت ربی عزوجل فی احسن صورة قال فیم یختصم الملا الا علی قلت انت اعلم قال فوضع کفہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدیی فعلمت ما فی السماوات والارض وتلا وکذالک نری ابراہیم ملکوت السماوات والارض ولیکون من المومنین۔ (دارمی) حضرت عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ۖنے فرمایا میں نے اپنے رب عزوجل کو (تجلی کی)بہترین صورت میں دیکھا رب تعالی نے (مجھ سے )پوچھا ملااعلی (یعنی مقرب فرشتے) کس بارے میں بحث کر رہے ہیں ۔میںنے جواب دیا کہ آپ زیادہ باخبرہیں آپ ۖ نے کہا میرے رب (کی تجلی)نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھاتو میں نے اس (کی راحت کے لطف )کی ٹھنڈک اپنے پستانوںکے درمیان پائی (یعنی مجھ پررحمت اور علوم کا نزول ہوا )تو میں نے آسمانوں اور زمین کی درمیان کی (نبوت کی ضرورت کی ) چیزوں کو