حضرت قیس بن عاصم سے پوچھا گیا کہ آپ نے شراب کیوں چھوڑ دی ؟ ان کا جوا ب تھا:
شراب مال کا ضیاع بھی ہے ، بد زبانی کا ذریعہ بھی ہے،اور مروت و شرافت کی قدروں کا خاتمہ بھی ہے۔ ( شعب الایمان:بیہقی:باب فی المطاعم والمشارب:۵/۱۴)
حضرت حسنؓ فرمایا کرتے تھے:
لَوْکَانَ الْعَقْلُ یُشْتَرَیْ لَتَغَالَیٰ النَّاسُ فِیْ ثَمَنِہِ، فَالْعَجَبُ مِمَّنْ یَشْتَرِیْ بِمَالِہِ مَا یُفْسِدُہُ۔ (المستطرف:۶۰۷)
اگر عقل فروخت ہوتی تو لوگ انتہائی گراں قیمت دیکر اسے خریدتے، بڑا تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو اپنا مال خرچ کر کے وہ چیز خریدتا ہے جو اس کی عقل کو برباد کرڈالے۔
حضرت ابن ابی اوفی نے اپنی قوم کو شراب سے منع کرتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے:
اَلاَ یَا لِقَوْمِی لَیْسَ فِی الْخَمْرِ رِفْعَۃٌ
فَلاَ تَقْرَبُوْا مِنْہَا فَلَسْتُ بِفَاعَلِ
فَإِنِّی رَأَیْتُ الْخَمْرَ شَیْنًا وَ لَمْ یَزَلْ
اَخُوْ الْخَمْرِ دَخَّالاً لِشَرِّ الْمَنَازِلِ
سنو اے میری قوم کے لوگو: شراب میں کبھی بھی بلندی نہیں مل سکتی، ہرگزاس کے قریب نہ جاؤ، میں کبھی نشہ نہیں کرتا، میں شراب کو بدترین عیب سمجھتا ہوں ، شراب نوش بدترین مقام وحال پر پر پہنچ کررہتا ہے۔(ایضاً)