قیمت پر دستیاب کرایا جارہا ہے، تاکہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد، جو ایسے کاروباریوں کا اصل ٹارگٹ ہیں ، بآسانی ان اشیاء کو حاصل کرسکیں ، یہ منشیات اگر چہ کم قیمت ہیں ، لیکن پھر بھی غریبوں کاکل اثاثہ ان پر ضائع ہوکر کیسے بھیانک مالی نقصان کا باعث بنتا ہے اور ایسے نشہ بازوں کاگھر انہ کس طرح مفلوک الحال اوردانے دانے کو محتاج ہوتاہے، تصور کرلیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ ابتداء میں تو انسان اپنے ارادے اور اختیار سے نشے کی لعنت میں مبتلا ہوتا ہے، لیکن پھر اس کی ایسی عادت پڑتی ہے اور ایسا چسکا لگتا ہے کہ گویا وہ اس کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا، پھر وہ اپنے قابو ہی میں نہیں رہتا، چنانچہ وہ منشیات حاصل کرنے کے لئے سب کچھ داؤں پر لگادیتا ہے،اپنی ساری پونجی لٹا دیتا ہے، جائداد بیچ دیتا ہے، کاسۂ گدایٔ لے کر دردر پھرتا ہے، بھیک مانگ کر نشہ کرتا ہے، چوری کر کے کام چلاتا ہے، اپنے جسم کے اعضاء( دل ،گردہ وغیرہ) تک بیچ ڈالتا ہے، بلڈ بینک کوخون دینے والے افراد عام طور پر نشہ باز ہوتے ہیں ، جوارزاں قیمت پر اپنا لہو فروخت کرکے اپنی نشہ کی چیز حاصل کرتے ہیں ، حد یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی ا ولاد اور بیویوں تک کا سودا کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے ، یہ بدترین نقصانات منشیات کی نحوست ہیں ۔
اس وقت دنیا کا سب سے مہنگا کاروبار منشیات کا ہے، تمام تر ظاہری قانونی بندشوں کے باوجود یہ کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے، قوم کا انتہائی بیش قیمت اثاثہ اس کی نذر ہورہا ہے، نہ جانے کتنے افراد اس وجہ سے دیوالیہ بن گئے، کتنے گھرانے نان شبینہ کے محتاج ہوگئے، اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہزاروں جوانوں کی صحت، زندگی اوردولت کو تباہ کرنے والے منشیات کے تاجر حکومتوں اور آقاؤں کی خفیہ اور مضبوط