پھر یہ حدیث ذکر کی ہے:
لُعِنَتِ الْخَمْرُ عَلَی عَشَرَۃِ اَوْجُہٍ: بِعَیْنِہَا، وَعَاصِرِہَا، وَمُعْتَصِرِہَا، وَبَائِعِہَا، وَمُبْتَاعِہَا، وَ حَامِلِہَا، وَالْمَحْمُوَلَۃِ إِلَیْہِ، وَآکِلِ ثَمَنِہَا، وَشَارِبِہَا، وَسَاقِیْہَا۔ ( ابن ماجہ/ ۳۳۸۰)
دس طریقوں سے شراب کو ملعون قرار دیاگیا ہے:(۱) بذات خود شراب (۲) شراب بنانے والا (۳) شراب بنوانے والا (۴) شراب فروخت کرنے والا (۵) شراب خریدنے والا (۶) شراب اٹھاکر لے جانے والا(۷) جس کی طرف اٹھاکر شراب لے جائی جائے (۸) شراب کی قیمت کھانے والا (۹) شراب پینے والا (۱۰) شراب پلانے والا۔
چنانچہ شراب نوشی، اس کی خرید و فروخت، شراب کے کارخانے میں کسی بھی طرح کا عمل سب حرام قرار دے دیا گیا ہے، اور حرمت کے ساتھ شراب کی ناپاکی اور جسم یا لباس پر لگ جانے کی صورت میں ان کا دھونا ضروری ہونا بھی متفق علیہ مسئلہ ہے، بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاتھاکہ ہم شراب یہودیوں کو تحفۃ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس اللہ نے شراب حرام کردی ہے اس نے اسے تحفۃ دینے سے بھی منع فرمادیا ہے۔
بعض حضرات نے اجازت چاہی کہ ہم شراب کو سرکہ میں تبدیل کیوں نہ کرلیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمادیا، بعض لوگوں کے پوچھنے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دواء کے طور پر استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔
(تفہیم القرآن:۱/۵۰۱)