اللہ نے تم کو کھجور اور انگور کے میوے دیئے، تم ان سے نشہ بناتے ہو اور اچھی روزی،اس میں عقل والوں کے لئے اللہ کی نشانی ہے۔
اس آیت میں سکر(نشہ) کو رزق حسن (اچھی روزی) کے مقابلہ میں بیان کیا گیا ہے،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نشہ اچھا رزق نہیں ہے۔
دوسرے مرحلے میں شراب و نشہ میں بڑی خرابی(اثم کبیر) کا ذکر کر کے اس کے نقصانات کی کثرت کوبیان کیا گیا اورناپسندیدگی کا اظہار کیاگیا۔(البقرۃ/۲۱۹)
حضرت عمر ؓ نے یہ آیت سن کر فرمایا:
اَللّٰہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِیْ الْخَمْرِ بَیَاناً شَافِیاً۔
خدایا: شراب کے معاملہ میں ہم کو صریح حکم دے دیجئے۔
(ابن کثیر:۲/۲۲۳، المائدہ)
تیسرے مرحلے میں نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کا حکم آیا۔(النساء/۴۳)
مے نوشی کے مضر اثرات ان تین مرحلوں کے ذریعہ دلوں میں راسخ کئے جانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں تمام لوگوں کو آگاہ فرمادیا:
تمہارے رب کو شراب انتہائی ناپسند ہے ، اور کچھ بعید نہیں کہ بہت جلد اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے، اس لئے جن کے پاس بھی شراب ہو وہ اسے فوراً فروخت کردیں ۔(تفہیم القرآن:۱/۵۰۱)
چنانچہ قرآن نے اگلے مرحلے میں اسے قطعی طور پرحرام قرار دے دیا اورصاف فرمادیا:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُوَالأَنْصَابُ