ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
چونکہ مسئلہ ختم ِ نبوت پر قرآنِ کریم کی آیات اور احادیث ِ متواترہ وارد ہیں اس لیے یہ عقیدہ اُمت میں متواتر چلا آرہا ہے کہ آنحضرت ۖ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی شخص منصب ِ نبوت پر فائز نہیں ہوسکتا اور جو شخص آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرے وہ مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ٭ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ ''شرح فقہ فتح اکبر'' میں لکھتے ہیںکہ ''ہمارے نبی ۖ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔ '' ١ ٭ حافظ ابن حزم اُندلسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ''الفصل والاہواء والنحل'' میں لکھتے ہیں ''جس کثیر التعداد جماعت اور جمِ غفیر نے آنحضرت ۖ کی نبوت اور نشانات اور قرآنِ مجید کو نقل کیا ہے اُسی کثیر التعداد جماعت اور جمِ غفیر کی نقل سے حضور علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا۔ حافظ ابن حزم ایک جگہ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ( وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ) اور حضور علیہ السلام کا ارشاد '' لَا نَبِیَ بَعْدِیْ'' یہ سن کر کوئی مسلمان کیسے جائز سمجھ سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد زمین میں کسی نبی کی بعثت ثابت کی جائے۔ '' بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ نبوت آپ کی تشریف آوری پر پوری ہوگئی آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہوگا،ان احادیث میں سے ایک حدیث کا مضمون یہ ہے کہ میری اُمت میں تقریباً تیس جھوٹے دجال ہوں گے اُن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ٢ چنانچہ قرآنِ کریم، احادیث ِمتواترہ اور اجماعِ اُمت کی رُو سے آنحضرت ۖ بلا استثناء تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے علی الاطلاق خاتم ہیں اس لیے آپ کے بعد کوئی شخص کسی معنی و مفہوم میں بھی نبی نہیں کہلا سکتا نہ منصب ِنبوت پر فائز ہو سکتا ہے اور جو شخص اِس کا مدعی ہو وہ کافر اور دائرہ ٔ اسلام سے خارج ہے۔ ------------------------------١ شرح فقہ فتح اکبر ص٢٠٢ ٢ ایضاً ص ٩٦