Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017

اكستان

50 - 66
چونکہ مسئلہ ختم ِ نبوت پر قرآنِ کریم کی آیات اور احادیث ِ متواترہ وارد ہیں اس لیے یہ عقیدہ اُمت میں متواتر چلا آرہا ہے کہ آنحضرت  ۖ  آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی شخص منصب ِ نبوت پر فائز نہیں ہوسکتا اور جو شخص آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرے وہ مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
 ٭  ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ ''شرح فقہ فتح اکبر'' میں لکھتے ہیںکہ ''ہمارے نبی  ۖ  کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔ ''   ١ 
 ٭ حافظ ابن حزم اُندلسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ''الفصل والاہواء والنحل'' میں لکھتے ہیں  ''جس کثیر التعداد جماعت اور جمِ غفیر نے آنحضرت  ۖ  کی نبوت اور نشانات اور قرآنِ مجید کو نقل  کیا ہے اُسی کثیر التعداد جماعت اور جمِ غفیر کی نقل سے حضور علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ثابت ہو چکا ہے کہ  آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا۔ 
حافظ ابن حزم ایک جگہ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ( وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ  وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ )  اور حضور علیہ السلام کا ارشاد  '' لَا نَبِیَ بَعْدِیْ''  یہ سن کر کوئی مسلمان کیسے جائز سمجھ سکتا ہے کہ حضور    علیہ السلام کے بعد زمین میں کسی نبی کی بعثت ثابت کی جائے۔ '' 
بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ نبوت آپ کی تشریف آوری پر پوری ہوگئی آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہوگا،ان احادیث میں سے ایک حدیث کا مضمون یہ ہے کہ میری اُمت میں تقریباً  تیس جھوٹے دجال ہوں گے اُن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا  ٢  چنانچہ قرآنِ کریم، احادیث ِمتواترہ اور اجماعِ اُمت کی رُو سے آنحضرت  ۖ  بلا استثناء تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے علی الاطلاق خاتم ہیں اس لیے آپ کے بعد کوئی شخص کسی  معنی و مفہوم میں بھی نبی نہیں کہلا سکتا نہ منصب ِنبوت پر فائز ہو سکتا ہے اور جو شخص اِس کا مدعی ہو وہ     کافر اور دائرہ ٔ اسلام سے خارج ہے۔ 
------------------------------
  ١   شرح فقہ فتح اکبر  ص٢٠٢    ٢    ایضاً ص ٩٦

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 اس شمارے میں 3 1
3 حرف آغاز 4 1
4 درسِ حدیث 7 1
5 چھوٹے گناہوں پر بھی گرفت ہو سکتی ہے 7 4
6 وفیات 9 1
7 صالح جمہوریت اور تعمیر جمہوریت 10 1
8 اصلاحِ معاشرہ کے اصول : 10 7
9 (الف) ایک دوسرے کا احترام : 11 7
10 (ب) دلوں کی صفائی : 14 7
11 (ج) جذبۂ تقدم و ترقی میں اعتدال : 19 7
12 (د) افواہ کی تحقیق، قوتِ مقاومت اور حوصلہ ٔ تادیب : 20 7
13 سیرت ِ پاک کا اِزدواجی پہلو اور مسئلہ کثرت ِ ازدواج 22 1
14 تعدد ِ ازواج کا دور اور خطراتِ شہوت پرستی کا قلع قمع : 22 13
15 ازواجِ مطہرات کے ذریعہ تعلیماتِ اسلام کی نشرو اشاعت : 27 13
16 تعددِ ازواج کا سیاسی پہلو : 28 13
17 آنحضرت ۖ کی قوت ِ رجولیت اور انتہائی نفس کُشی : 28 13
18 ایک اہم نکتہ : 29 13
19 تبلیغ ِ دین 31 1
20 مذموم اخلاق کی تفصیل اور طہارتِ قلب کا بیان 31 19
21 (١) پہلی اصل ....... کثرتِ اکل اور حرصِ طعام کا بیان : 32 19
22 تقلیلِ طعام کے فوائد : 32 19
23 مقدارِ طعام کے مراتب : 34 19
24 وقت ِاکل کے مختلف درجات : 35 19
25 جنس ِطعام کے مراتب مختلفہ : 36 19
26 سالکوں کو ترک ِلذائذ کی ضرورت : 36 19
27 فضائلِ مسجد 37 1
28 مسجد بنانا : 37 27
29 صدقاتِ جاریہ : 40 27
30 (١) علم سیکھنا اور سکھانا : 41 27
31 (٢) نیک اولاد : 41 27
32 (٣) ورثہ میں چھوڑ ا ہوا قرآن شریف : 42 27
33 (٤) مسافر خانہ اور نہر بنانا : 42 27
34 (٥) صدقہ : 42 27
35 مسجدیں آباد رکھنا : 43 27
36 عقیدۂ ختم ِ نبوت کی عظمت واہمیت 46 1
37 اولاد کی تعلیم و تربیت 51 1
38 دل کی حفاظت 55 1
39 حضرات ِصحابہ کرام وغیرہم کی سخاوت کے چند واقعات 55 38
40 حضرت ابو بکر کی سخاوت : 55 38
41 حضرت عمر کی سخاوت : 56 38
42 حضرت عثمانِ غنی کی سخاوت : 56 38
43 حضرت علی کی سخاوت : 57 38
44 حضرت طلحہ کی سخاوت : 57 38
45 حضرت عائشہ کی سخاوت : 58 38
46 حضرت سعید بن زید کی سخاوت : 58 38
47 حضرت عبد اللہ بن جعفر کی سخاوت : 59 38
48 سیّدنا حضرت حسین کی سخاوت : 60 38
49 حضرت عبداللہ بن عباس کی سخاوت : 61 38
50 خانوادہ ٔ نبوت کی سخاوت کا نمونہ : 61 38
51 حضرت لیث بن سعد کی سخاوت : 62 38
52 حضرت عبداللہ بن عامر کی سخاوت : 62 38
53 اخبار الجامعہ 64 1
54 بقیہ : فضائل مسجد 64 27
56 جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے 65 1
Flag Counter