ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
کی دی ہوئی نعمتیں یاد لائی جائیں گی، اس کو سب نعمتیں یاد آجائیں گی تو اُس سے سوال کیا جائے گا کہ تو نے ہماری ان نعمتوں کا کیا کیا ؟ وہ کہے گا کہ کوئی ایسا مصرف جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہے میں نے نہیں چھوڑا میں نے سارے خیر کے کاموں میں مال خرچ کیا، ارشاد ہوگا تو جھوٹ بولتا ہے تونے صرف اس لیے خرچ کیا کہ تجھے سخی کہا جائے چنانچہ تجھے سخی کہا جا چکا (تیری غرض حاصل ہو چکی ہے، تیرا مقصد خدا کی رضا نہ تھی )پھر حکم دیا جائے گا اور اُس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گااَللّٰہُمَّ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو دکھاوا کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو بہت رُسوا فرمائیں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ریا سے محفوظ رکھے۔ یہاں کچھ لوگوں کو شبہ ہو سکتا ہے کہ جب آدمی کوئی اچھا کام کرے گا تو لوگ اُس کو اچھا کہیں گے ہی، تو بات یہ ہے کہ مقصود نیت کی صفائی اور اخلاص ہے، اللہ جل شانہ عالم الغیب ہیں نیتوں کا حال جانتے ہیں نیت صاف و پاک ہونی چاہیے پھر اِس دنیا میں بھی اگر لوگ تعریف کرتے ہیں تو یہ اللہ کا احسان اور اُس کی نعمت ہے شکر کا مقام ہے تکبر کی اجازت نہیں۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور اقدس ۖ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضور ! ایسے شخص کے متعلق کیا ارشاد ہے جو نیکی کا کام کرے اور لوگ اُس عملِ خیر پر اُس کی تعریف کرنے لگیں تو حضور ۖ نے فرمایا : تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ ۔ ١ ایک ضروری بات یہ ہے کہ لوگ بلا سمجھے بوجھے علماء سے معلوم کیے بغیر مسجدیں بنوادیتے ہیں کبھی کبھی نئی مسجدیں مسلمانوں میں افتراق کا سبب بن جاتی ہیں یا پہلی مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں حالانکہ جس زمین پر ایک مرتبہ مسجد بنادی جائے وہ زمین تا قیامت مسجد بن جاتی ہے اُس کوآباد رکھنا ضروری ہے، اس زمین پر مسجد کی عمارت رہے یا نہ رہے نہ کوئی اورعمارت بنائی جا سکتی ہے نہ اُس زمین کو کسی اور مصرف میں استعمال کیا جا سکتا ہے، آج بھی ہزاروں مسجدیں ایسی ہیں جن کے لیے نمازی نہیں ملتے، گردو غبار کا ڈھیر گندگی کی کوڑیاں بنی ہوئی ہیں پھر اِس کی پاداش تمام مسلمانوں پر پڑتی ہے اس لیے ------------------------------١ مسلم شریف کتاب البر و الصلة و الاداب رقم الحدیث ٢٦٤٢