Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017

اكستان

38 - 66
لیکن مسجد بنانے کے لیے بھی سارے اعمالِ خیر کی طرح بنیادی شرط یہ ہے کہ بنانے والے کی غرض اللہ کی رضا کے سوا اور کچھ نہ ہو، دکھاوا اور ریا کا بالکل شائبہ نہ ہو، کسی نخوت و تکبر یا کسی اور دنیا وی غرض کے لیے نہ ہو کیونکہ اگر ریا کے لیے مسجد بنوائی یا کوئی بھی عملِ خیر کیا تو اُس میں ثواب ملنا تو در کنار خطرہ ہے کہ لینے کے دینے نہ پڑجائیں، ریا اور دکھاوا بہت بری چیز ہے بلکہ یہ تو شرکِ اصغر ہے،  حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام میں بھی میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کرے گا تو میں اُس کو اُس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دوں گا، حضور اقدس  ۖ  ارشاد فرماتے ہیں کہ ریا شرکِ اصغر ہے قرآن شریف میں لوگوں کو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرنے والوں کے بارے میں ارشاد ہے  : 
( کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہ رِئَائَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَاب فَاصَابَہ وَابِل فَتَرَکَہ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ            مِّمَّا کَسَبُوْا) (سُورة البقرة :  ٢٦٤ )
''جو شخص اپنا مال لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا اُس کی حالت ایسی ہی ہے جیسے ایک چکنا پتھر جس پر کچھ مٹی ہو پھر اِس زور کی بارش ہو تو اُس کو بالکل صاف کردے، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی بالکل ہاتھ نہ لگے گی۔ '' 
 دوسری ایک آیات میں منافقین کی صفات میں آیا ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اس لیے اگر کسی نے مسجد بنوائی اُس میں اپنا مال خرچ کیا مگر اُس کی غرض خدا کی رضا نہ ہوئی تو وہ مسجد اُس کے لیے صدقہ جاریہ توکیا بنتی اُس کے لیے اور مصیبت کا باعث بن جائے گی۔ 
حضرت ابو ہریرہ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم  ۖ  نے فرمایا کہ قیامت کے روز جب لوگوں کے فیصلے کیے جائیں گے تو پہلے فیصلے کیے جانے والے لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت عطا فرمائی تھی اُس کو حضورِ خدا وندی میں پیش کیا جائے گا اور اُس کو اللہ
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 اس شمارے میں 3 1
3 حرف آغاز 4 1
4 درسِ حدیث 7 1
5 چھوٹے گناہوں پر بھی گرفت ہو سکتی ہے 7 4
6 وفیات 9 1
7 صالح جمہوریت اور تعمیر جمہوریت 10 1
8 اصلاحِ معاشرہ کے اصول : 10 7
9 (الف) ایک دوسرے کا احترام : 11 7
10 (ب) دلوں کی صفائی : 14 7
11 (ج) جذبۂ تقدم و ترقی میں اعتدال : 19 7
12 (د) افواہ کی تحقیق، قوتِ مقاومت اور حوصلہ ٔ تادیب : 20 7
13 سیرت ِ پاک کا اِزدواجی پہلو اور مسئلہ کثرت ِ ازدواج 22 1
14 تعدد ِ ازواج کا دور اور خطراتِ شہوت پرستی کا قلع قمع : 22 13
15 ازواجِ مطہرات کے ذریعہ تعلیماتِ اسلام کی نشرو اشاعت : 27 13
16 تعددِ ازواج کا سیاسی پہلو : 28 13
17 آنحضرت ۖ کی قوت ِ رجولیت اور انتہائی نفس کُشی : 28 13
18 ایک اہم نکتہ : 29 13
19 تبلیغ ِ دین 31 1
20 مذموم اخلاق کی تفصیل اور طہارتِ قلب کا بیان 31 19
21 (١) پہلی اصل ....... کثرتِ اکل اور حرصِ طعام کا بیان : 32 19
22 تقلیلِ طعام کے فوائد : 32 19
23 مقدارِ طعام کے مراتب : 34 19
24 وقت ِاکل کے مختلف درجات : 35 19
25 جنس ِطعام کے مراتب مختلفہ : 36 19
26 سالکوں کو ترک ِلذائذ کی ضرورت : 36 19
27 فضائلِ مسجد 37 1
28 مسجد بنانا : 37 27
29 صدقاتِ جاریہ : 40 27
30 (١) علم سیکھنا اور سکھانا : 41 27
31 (٢) نیک اولاد : 41 27
32 (٣) ورثہ میں چھوڑ ا ہوا قرآن شریف : 42 27
33 (٤) مسافر خانہ اور نہر بنانا : 42 27
34 (٥) صدقہ : 42 27
35 مسجدیں آباد رکھنا : 43 27
36 عقیدۂ ختم ِ نبوت کی عظمت واہمیت 46 1
37 اولاد کی تعلیم و تربیت 51 1
38 دل کی حفاظت 55 1
39 حضرات ِصحابہ کرام وغیرہم کی سخاوت کے چند واقعات 55 38
40 حضرت ابو بکر کی سخاوت : 55 38
41 حضرت عمر کی سخاوت : 56 38
42 حضرت عثمانِ غنی کی سخاوت : 56 38
43 حضرت علی کی سخاوت : 57 38
44 حضرت طلحہ کی سخاوت : 57 38
45 حضرت عائشہ کی سخاوت : 58 38
46 حضرت سعید بن زید کی سخاوت : 58 38
47 حضرت عبد اللہ بن جعفر کی سخاوت : 59 38
48 سیّدنا حضرت حسین کی سخاوت : 60 38
49 حضرت عبداللہ بن عباس کی سخاوت : 61 38
50 خانوادہ ٔ نبوت کی سخاوت کا نمونہ : 61 38
51 حضرت لیث بن سعد کی سخاوت : 62 38
52 حضرت عبداللہ بن عامر کی سخاوت : 62 38
53 اخبار الجامعہ 64 1
54 بقیہ : فضائل مسجد 64 27
56 جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے 65 1
Flag Counter