ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
لیکن مسجد بنانے کے لیے بھی سارے اعمالِ خیر کی طرح بنیادی شرط یہ ہے کہ بنانے والے کی غرض اللہ کی رضا کے سوا اور کچھ نہ ہو، دکھاوا اور ریا کا بالکل شائبہ نہ ہو، کسی نخوت و تکبر یا کسی اور دنیا وی غرض کے لیے نہ ہو کیونکہ اگر ریا کے لیے مسجد بنوائی یا کوئی بھی عملِ خیر کیا تو اُس میں ثواب ملنا تو در کنار خطرہ ہے کہ لینے کے دینے نہ پڑجائیں، ریا اور دکھاوا بہت بری چیز ہے بلکہ یہ تو شرکِ اصغر ہے، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام میں بھی میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کرے گا تو میں اُس کو اُس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دوں گا، حضور اقدس ۖ ارشاد فرماتے ہیں کہ ریا شرکِ اصغر ہے قرآن شریف میں لوگوں کو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرنے والوں کے بارے میں ارشاد ہے :( کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہ رِئَائَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَاب فَاصَابَہ وَابِل فَتَرَکَہ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا) (سُورة البقرة : ٢٦٤ ) ''جو شخص اپنا مال لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا اُس کی حالت ایسی ہی ہے جیسے ایک چکنا پتھر جس پر کچھ مٹی ہو پھر اِس زور کی بارش ہو تو اُس کو بالکل صاف کردے، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی بالکل ہاتھ نہ لگے گی۔ '' دوسری ایک آیات میں منافقین کی صفات میں آیا ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اس لیے اگر کسی نے مسجد بنوائی اُس میں اپنا مال خرچ کیا مگر اُس کی غرض خدا کی رضا نہ ہوئی تو وہ مسجد اُس کے لیے صدقہ جاریہ توکیا بنتی اُس کے لیے اور مصیبت کا باعث بن جائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ قیامت کے روز جب لوگوں کے فیصلے کیے جائیں گے تو پہلے فیصلے کیے جانے والے لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت عطا فرمائی تھی اُس کو حضورِ خدا وندی میں پیش کیا جائے گا اور اُس کو اللہ