ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
کی کوششیں اسلام کے روشن چراغ کے بجھانے میں صرف کرتے رہے، مدینہ منورہ پر بارہا دھاوا کیا جبکہ دشموں کے دھاوا کرنے اور سامانِ جنگ کے جمع کرنے کی خبریں آئیں تو بار ہا خود آنحضرت علیہ السلام نے ان پر فوج کشی کی، بارہا قوموں اور قبائل نے مسلمانوں کو نقصانات جانی اور مالی پہنچائے، تبلیغ کے راستہ میں سختی کے ساتھ مانع ہوئے جن کی تفصیلیں جنابِ رسول اللہ ۖ کے مغازی اور سرایا میں مذکور ہیں، پھر یہ بھی نہیں تھا کہ فوجیں پہلے سے جمع تھیں خزانے بھرے ہوئے تھے ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود تھا رسد کا سامان مہیا تھا بلکہ ان سب چیزوں کو ہمیشہ تیار کرنا پڑتا تھا غرضیکہ کوئی وقت چین کا ظاہری قاعدہ سے نہیں مل سکتا تھا۔ (٢) جنابِ رسول اللہ ۖ پر سخاوت اس قدر غالب تھی کہ کبھی کسی سوال کرنے والے کو واپس نہیں کیا جو کچھ آتا تھا تقسیم فرمادیتے تھے، گھربار مال و متاع کے چھوڑدینے اور ہجرت کرنے کی وجہ سے عام طور پر مہاجر مسلمان نہایت تنگی اور فقر میں مبتلا تھے روزانہ جنگ و جدال اور اس کی تیاریوں کی بنا پر خود انصار اہلِ مدینہ اپنے باغوں اور کھیتوں کی کماحقہ خبر گیری نہیں کر سکتے تھے اور نہ اسباب ِ معیشت مہیا کرنے کی مہلت ملتی تھی ہر قبیلہ اور ہر آبادی کے مخالفین ِاسلام مسلمان ہونے والے افراد کے مال وجائیداد پر قبضہ کرلیتے تھے اور ہر قسم کی عداوت کی داد دیتے تھے، ان وجوہ کی بنا پر آنحضرت علیہ السلام لوگوں کی خبر گیری اور ان پر مال لٹا دینا ضروری سمجھتے تھے اور جو کچھ کہیں سے بھی آتا تھا اربابِ حاجت کو فورًا دے دیتے تھے،اسی وجہ سے آپ پر تنگدستی اور ظاہری فقرو فاقہ کی اس قدر شدت تھی کہ تمام ایامِ زندگانی میں جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اکثر فاقوں پر گزران ہوتی تھی، دو سالن کبھی آپ کے دستر خوان پر جمع نہیں ہوئے، گیہوں کی روٹی شاذ و نادر آپ کے دستر خوان پر آیا کرتی تھی تین تین چاند گزر جاتے تھے کہ آپ کے یہاں کھانا پکانے کے لیے نہ آگ جلتی تھی اور نہ دھواں اُٹھتا تھا فقط پانی اور چند دانے کھجوروں پر کفایت کی جاتی تھی فاقہ کی تکلیفوں کی بنا پر بسا اوقات آپ کو ایک ایک دو دو پتھر پیٹ پر باندھنے کی نوبت آئی، مقوی داوؤں اور اعلیٰ درجہ کی غذاوں کا ملنا تو درکنار (جن کی شہوت پرستوں کو ضرورت ہوتی ہے) معمولی درجہ کی غذا بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتی تھی اور نہ ہمیشہ آدھے پیٹ ہی ملتی تھی