ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
کہلانے لگے، ان کے پڑپوتے امام بخاری ہیں (ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردِزبہ) یہ اسی بنا پر جعفی کہلاتے ہیں۔ امامِ حدیث ابن ماجہ بھی اسی تعلق کی بنا پر'' رِبعی'' کہلاتے ہیں۔ حضرت تمیم داری نے آنحضرت ۖ سے دریافت کیا ایک شخص کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا ہے تو اُس کا تعلق اس کے ساتھ کیا ہونا چاہیے ؟ آنحضور ۖ نے جواب دیا : ھُوَ اَوْلَی النَّاسِ بِمَحْیَاہُ وَمَمَاتِہ ١ یعنی اس کے مرنے جینے کا ساتھی ہے اس مسلمان کرنے والے کا تعلق اس کے ساتھ سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔ مسلمانوں نے اس ارشادِ گرامی پر اس طرح عمل کیا کہ ایسے نو مسلموں کو اپنے قبیلے کا فرد بنالیا اور صرف امام ابو حنیفہ اور امام بخاری ہی نہیں بلکہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے بعد جن کو علم و فضل کے عرش معلیٰ پر جلوہ گر پایا گیا وہ سب عجمی تھے اور ان میں زیادہ وہ تھے جو خود غلام تھے جن کو صحابہ کرام نے آزاد کر کے اپنی اولاد کی طرح تربیت دی تھی یا ایسے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد تھے ان کو'' موالی'' ٢ جاتا تھا ۔ اُموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک (متوفی ١٢٥ھ/ ٧٤٣ئ) نے ایک مرتبہ اپنی مملکت کے تمام علمی مرکزوں کا جائزہ لیا کہ کہاں عجمی علماء کے علم و فضل کا آفتاب چمک رہا ہے اور کہاں عربی علماء ضیاء پاش ہیں تو اس کے سامنے یہ تفصیل پیش کی گئی : ٭ مکہ معظمہ کے جلیل القدر علماء وفقہا : ( ١) عطا ء بن ابی رباح (٢) مجاہد (٣) سعید بن جبیر (٤) سلیمان بن یسار ٭ مدینہ منورہ : (١) زید بن اسلم (٢) محمد بن المنکدر (٣) نافع بن ابی نجیح ٭ قبا : (١) ربیع الرائی (٢) ابن ابی الزناد ٭ عراق : (١) حسن بن ابی الحسن (٢) محمد بن سیرین ٭ یمن : (١) طاؤس بن کیسان (٢) ابن طاؤس(٣) ابن منبّہ ------------------------------١ ابو داود کتاب الفرائض ٢ ''مولیٰ'' کی جمع