دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
التَّسَلْسُل: باب الدال کے تحت ’’دَور‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ التَّشْبِیْہُ:مشارکۃ أمر لأمر في معنیً بأدَواتٍ مَعلومَۃٍ (لغَرَضٍ)، کقولکَ: العِلمُ کالنُّورِ فيْ الھِدایَۃِ۔(جواھر البلاغۃ: ۱۵۶) تشبیہ:ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ کسی وصفِ خاص میں لاحق کرنا، بہ شرطے کہ یہ ملانا (اغراضِ تشبیہ میں سے)کسی غرَض کے لیے بہ ذریعۂ اَداتِ تشبیہ ہو۔ المَجَازُ:ہو اللفظُ المستعملُ في غیرِ ماوُضعَ لہُ، لِعلاقۃٍ معَ قرینۃٍ دالّۃٍ علی عدمِ إرادۃِ المعنی الأصليِّ۔ مجاز: وہ لفظ ہے جس کو کسی مناسَبت سے اپنے معنیٔ وضعی کے عِلاوہ کسی اَور مفہوم میں استعمال کیا جائے، بہ شرطے کہ معنیٔ اصلی کو مراد نہ لینے پر دلالت کرنے والا کوئی قرینہ بھی ہو۔ الملاحظۃ: العلاقۃَ بینَ المَعنَی الحَقیقيِّ والمَعنَی المَجازيِّ قَد تَکونُ المُشابھۃُ، وقد تَکونُ غَیرَہا؛ فإذا کانتِ المُشابَھۃُ فہوَ اسْتعارَۃٌ، (نحو:رَأیتُ أَسداً یُخاطِبُ النَّاسَ)، وإلاَّ فہوَ ’’مَجازٌ مُرسَلٌ‘‘۔ (نحو: قولہ تعالیٰ:{یَجْعَلُوْنَ أَصَابِعَہُمْ فِي آذَانِہِمْ})۔(جواہر البلاغۃ: ۱۷۷) ملاحظہ: لفظ کے معنیٔ حقیقی اور معنیٔ مجازی کے درمیان کبھی تشبیہ کی مناسَبت ہوتی ہے، جس کو ’’اِستعارہ‘‘ کہتے ہیں ،جیسے: میں نے شیر (مثلاًسلیمان)کو دیکھا کہ جولوگوں سے گفتگو کررہا تھا۔ اور کبھی (تشبیہ کے عِلاوہ) کوئی دوسری مناسَبت ہوتی ہے اُس کو ’’مجازِ مرسل‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے باری تعالیٰ کافرمان:’’وہ ٹھونس لیتے ہیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ‘‘، اس جگہ انگلی بول کر انگلی کاجوڑ مراد لیا ہے)۔