دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الکاف الکبریٰ: باب القاف کے تحت ’’قِیاس‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الکتاب: في الأصلِ مصدرٌ یطلقُ علَی المکتُوبِ، وفي الاصطلاحِ: طائفۃٌ منَ المَسائِلِ اُعتبرتْ مُستقلَّۃً، سوائٌ کانَت مستقلۃ في نفسہا، ککتابِ اللقطَۃِ؛ أوْ تابعۃً لما بعدَہا، ککتُبِ الطہارَۃِ؛ أوْ مُسْتَتْبَعَۃً لما قَبلَہا، ککتاب الصلاۃ۔ (حاشیۃ ھدایۃ۱/۱۵) کتاب: در اصل کَتَبَ (ن)،سے مصدر ہے، جس کا اِطلاق مکتوب (تحریر) پر ہوتا ہے۔ اصطلاحی معنیٰ: مسائل کا وہ مجموعہ جس کو مستقل بالذات ہونے کی حیثیت دی گئی ہو، چاہے وہ مجموعہ واقعتاً مستقل بالذات ہو، جیسے: کتاب اللُّقطۃ کے مسائل؛ یا وہ مجموعہ مضامینِ مابعد سے متصل ہو، جیسے: کتابُ الطَّہارۃ (کتاب الصلاۃ کے مضامین سے متصل ہے)؛ یامضامینِ ماقبل سے لاحق ہو، جیسے: کتاب الصَّلاۃ۔ المراد بالکتاب: مَا یُکتبُ فیہِ۔ وَعندَنا إِذا اُطلِقَ فھُوَ القرآنُ الکریمُ، کلامُ اللّٰہِ المَلِکِ العَلاَّمِ۔ وَفقھاؤُنا أَطلقُوْہٗ عَلیٰ مُختصَرِ القُدوْريْ۔ وَعندَ النُّحاۃِ الکتابُ لسیبویہِ۔ (التعریفات الفقہیۃ:۱۸۰) کتاب سے مراد: لکھے ہوئے اَوراق کا مجموعہ، اور (مسلمانوں کے نزدیک) لفظِ کتاب کو جب مطلق بولا جاتا ہے تو ہر بات سے واقف بادشاہ کا کلام (قرآن کریم) مراد ہوتا ہے، اور فقہائے اَحناف کے نزدیک حالتِ اِطلاق میں ’’مختصر القدوری‘‘ مراد ہوتی ہے، اور نُحات کے نزدیک اِمامِ سیبویہ کی کتاب مراد ہوتی ہے۔