دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
عزائم برائے طلبہ مدارسِ عربیہ کے طلباء سے جب کبھی علمی مذاکرہ کا موقع ملتا، تو اُن کے عزائم اور طریقۂ کار کے متعلق اِستفسار پر پتہ چلتا کہ، طلبا کی معتد بہٖ تعداد وہ ہے، جو اپنی زندگی کے لمحات سے مکمل فائدہ اُٹھاکر اپنا مستقبل تابناک دیکھنا چاہتے ہیں ؛ مگر اُن باہمت طلباکے سامنے محنت کرنے کی صحیح ترتیب نہ ہونے یا اپنے مشفق اساتذہ کی رہنمائی پر عمل نہ کرنے اور اُن سے ربط نہ رکھنے کے باعث کماحقہٗ علمی پختگی پیدا نہیں کرپاتے؛حالاں کہ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ اساتذہ سے رَبط کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’خوب سمجھ لیجیے، کہ اِن ہی اساتذہ کی محفلوں میں شرکت کرکے آپ صحیح ذوق وشوق پیدا کرسکتے ہیں ‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :’’مطالعہ وسیع کیجیے، اور اِس کے لیے اپنے اساتذہ، خاص طورپر مربی الاصلاح سے اور اُن اساتذہ سے جن سے آپ کا ربط ہے، مشورہ لیجیے‘‘۔ نیز یہ بھی مسلَّمات میں سے ہے کہ، طالب علم کی ترقی اور پرواز کرنے میں عزائم کی حیثیت وہی ہے جو حیثیت پروں کی پرندوں کے لیے ہوا کرتی ہے؛ لہٰذاطُلَباء کے عزائم اور اُن کے دل کی آواز کے پیشِ نظراپنی کم علمی کے باوجود اکابر کے مشورے سے ہر درجے کے لیے محنت کی راہ متعین کرنے کی ادنیٰ کوشش کی ہے۔ ع گر قبول اُفتد زہے عزوشرف! میری قسمت سے الٰہی پائیں یہ رنگِ قبول پھول کچھ مَیں نے چُنے ہیں اُن کے دامن کے لیے