دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب التاء التَّألیْف: ہو جعلُ الأشیائِ الکثیرۃِ بحیثُ یُطلقُ علیہا اسمُ الواحدِ، سوائٌ کان لبعضِ أجزائِہ نسبۃٌ إلَی البعضِ بالتقدُّمِ والتأخُّرِ أم لاَ۔ (کتاب التعریفات: ۵۲) تالیف: مختلف مضامین کو بہ ایں طور ترتیب دینا کہ تمام پر کسی ایک نام کا اطلاق کیا جاسکے، چاہے وہ مضامین آپس میں باعتبار تقدُّم وتأخُّر کے مربوط ہوں یا نہ ہوں ۔ التَّأویْلُ: (في الشرعِ) صرفُ اللفظِ عنْ معناہٗ الظَاہرِ إلیٰ معنیً یحتملُہٗ، إذا کانَ المحتمَلُ الذي یراہ مُوافقاً بالکتاب والسنۃِ، مثلُ قولِہِ تعالیٰ {یُخْرِجُ الحَيَّ مِنَ المَیِّتِ}۔(۱) (کتاب التعریفات :۵۲) تاویل:لفظ کو اُس کے معنیٔ ظاہر سے معنیٔ محتمل کی طرف پلٹ دینا، بہ شرطے کہ وہ گمان کردہ معنیٔ محتمل کتاب وسنت کے موافق ہو، جیسے: باری تعالیٰ کا فرمان: {یُخْرِجُ الحَيَّ مِنَ المَیِّتِ}، وہ جان دار کو مردہ یعنی بے جان سے (۱)الملاحظہ:قیل: التأویل مرادف التفسیر، وقیل: ہو الظن بالمراد، والتفسیر القطع بہ؛ فاللفظ المجمل إذا لحقہ البیان بدلیل ظني کخبر الواحد یسمیٰ مؤوَّلا، وإذا لحقہ البیان بدلیل قطعي یسمیٰ مفسرا؛ وقیل: ہو أخص من التفسیر۔ (کشاف ۱؍۱۱۹)