دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الحاء الحادث: اسمُ فاعِلٍ مِن الحُدوْثِ، (فاعْلمْ) أَنَّ الحُدوثَ یُطلقُ عَلیٰ مَعنَیَیْنِ: (أَحدہما): وُجودُ الشَّيئِ بَعدَ عَدمِہِ بُعدیَّۃً زَمانِیَّۃً۔ وَبِعبارۃٍ أُخْریٰ: کونُ الشيئِ مَسبُوقاً بِالعَدمِ سَبْقاً زَمَانِیاً، وَہوَ المُسمّٰی ’’بالحدوثِ الزَّمانيْ‘‘؛ وَیُقابِلُہٗ القِدمُ الزَّمانيْ۔ فالحادِثُ حٍٍ ہوَ المَوجوْدُ المَسبوقُ بالعَدمِ سَبقاً زَمانِیاً۔ وَالمُتکلِّمونَ قائلوْنَ: بأنَّ العالَمَ حادِثٌ بہٰذا الحُدوْثِ۔ و(ثانیھما): کوْنُ الشَّيئِ مُفتَقراً مُحْتاجاً فيْ وُجوْدِہِ إِلیٰ غَیرِہِ أيْ عِلتِہِ تامَّۃً أوْ ناقصَۃً۔(دستور العلماء۲/۴) حادث: حدوث(بہ معنیٰ: نیا ہونا، پیدا ہونا) کا اسمِ فاعل ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ فلاسفہ کے نزدیک، حادث کا اِطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے: حدوثِ زمانی، حدوثِ ذاتی۔ حدوثِ زمانی: چیز کا بہ اعتبارِ زمانہ عدم کے بعد وجود میں آنا (نیست کے بعد ہست ہونا)، اِس کا مقابل: قدمِ زمانی ہے۔ حدوثِ ذاتی: چیز کا اپنے وجود میں کسی علتِ تامہ یاناقصہ کا محتاج ہونا۔ ملاحظہ: متکلمین کے نزدیک العالمُ حادثٌمیں حدوث سے حدوثِ زمانی مراد ہے، نہ کہ حدوثِ ذاتی جیسا کہ فلاسفہ مانتے ہیں ۔