دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الطاء والظاء الطرْدُ والعکسُ: باب الجیم کے تحت ’’جامع مانع‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ طرداً للباب: والاستطرادُ: یراد بہ في العلوم ذکرُ الشَّيئِ لاعنْ قصدِہٖ بلْ بتبعِیَّۃِ غیرِہٖ،(کقولہ تعالی: {یٰبَنِيٓ آدَمَ قَدْ أنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِيْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشاً وَ’’لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ‘‘} [الأعراف: ۲۶])۔ (دستور العلماء۱/۱۳۰) طرداً للباب: کسی غیر مقصود چیز کو (باب یاموضوع کی مناسبت سے) تبعاً ذکر کرنا،جیسے باری تعالیٰ نے آدم وحواء کے واقعے کو ذکر کیا ہے کہ: ہم نے تم کو جنتی لباس کے اتر جانے پر دنیوی لباس عطا فرمایا ہے اور موضع اِمتنان مین لباس ظاہری کو ذکر کرتے ہوئے ضمناً دین داری کے لباس کابھی تذکرہ فرما لیاہے۔(۱) ظاہرُ الرِّوایَۃِ: مَسَائلُ الأُصُوْلِ، وہيَ مَسَائلُ ظاہِرِ الرِّوَایَۃِ: وہيَ مَسَائلُ المَبْسُوطِ -لمُحمَّدٍ ،ویُقالُ لہُ: الأصْلُ-، ومَسَائلُ الجامِعِ الصَّغیرِ، والجامِعِ الکبِیْرِ، والسِّیَرِ (الصَّغیرِ والکبِیْرِ)، والزِّیَاداتِ؛ (۱)ملحوظہ:کبھی طرداً للباب کے لفظ کو ’’جعل الباب مطردا‘‘ یعنی باب میں عمومیت پیدا کرنے کے معنیٰ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: بابِ اِفعال کے مضارع میں واحد متکلم کے صیغے أأکرم میں دو ہمزہ جمع ہیں ، اور بہ حالتِ استفہام تین ہمزہ جمع نہ ہوجائیں ؛ لہٰذا صیغۂ واحد متکلم سے ہمزۂ اِفعال کو حذف کردیا گیا، پھر دیگر صیغِ مضارع کے شروع میں اگرچہ یہ خرابی لازم نہیں آتی؛ لیکن صیغۂ واحد متکلم کی مناسَبت سے طرداً للباب تمام صیغوں سے ہمزۂ اِفعال کو حذف کردیا گیا۔