دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الشین الشاذ: علیٰ نَوعَینِ: شاذٌّ مقبولٌ، وَشاذٌّ مَردودٌ۔ أَمَّا الشاذُّ المَقبولُ: ھُو الذيْ یَجِيئُ علیٰ خِلافِ القِیاسِ، وَیُقبَلُ عندَ الفُصحائِ وَالبلغائِ۔ وَأَما الشاذُّ المَردودُ: ھُوَ الذيْ یَجيئُ علیٰ خِلافِ القِیاسِ وَلاَ یُقبَلُ عندَ الفُصحائِ وَالبُلغائِ۔(کتاب التعریفات:۱۲۶) شاذ: (بہ معنیٰ خلافِ قِیاس، خلافِ اصول، نادر الوقوع، انوکھا)۔ اِس کی دو قِسمیں ہیں : شاذِ مقبول، شاذِ مردود۔ شاذِ مقبول: وہ شاذ ہے جو خلافِ اصول واقع ہو؛ البتہ فُصحا وبُلغا کے یہاں قابلِ قبول ہو(جیسے: لفظِ ’’مَزْدُور‘‘ کہ در اصل فارسی میں مُزْدَوَرْ ہے، مُزْدَ بمعنیٰ اُجرت اور وَرْ بمعنیٰ والا سے مرکب ہے،اور جیسے: مَشرِقٌ ومَغرِبٌ اسمائے ظروف کو بکسر الراء پڑھنا خلافِ اصل ہے؛ لیکن فصحائے عرب اِس کو بکسر الراء ہی پڑھتے ہیں ، نہ کہ بفتح الراء)۔ شاذِ مردود: وہ شاذ ہے جو خلافِ اصول واقع ہو، اور فُصَحا وبُلغا کے یہاں پسندیدہ (بھی) نہ ہو، (یعنی غیر فصیح، قلیل الاستعمال،جیسے: الحَمْدُللَّہ العَلِيِّ الأَجْلَلِ میں لفظ أَجْلَلِ کو بغیر ادغام کے استعمال کرنا شاذ ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں ادغام کرنا ضروری ہے۔)۔ النادر: مَا قَلَّ وُجودُہٗ، سَوائٌ کانَ مُخالِفاً للقِیاسِ أَوْ مُوافقاً