دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الزاء والسین الزَعْم: ھُوَ القَولُ بِلادلیلٍ۔(کتاب التعریفات:۱۱۶) زَعم: بے حقیقت دعویٰ۔ السبب: (فُقَہا کی اصطلاح) باب العین کے تحت ’’علت‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ السبب: (علمِ عروض کی اصطلاح) باب الواو کے تحت ’’وزنِ شعری‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ السَّجْع: باب الشین کے تحت ’’شعر‘‘کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ السَّطْح: باب النون کے تحت ’’نقطہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ السَفْسَطَۃُ: قِیاسٌ مرکَّبٌ مِن الوَھمِیَّاتِ۔ وَالغرَضُ منہٗ تغلیط الخصمِ وإسکاتہُ، کقولنا: الجوہرُ موجودٌ في الذِّھنِ، وکلُّ موجودٍ في الذِّھنِ قائمٌ بالذِّھنِ، ینتجُ: أنَّ الجوہرَ عرضٌ؛ فإن القائمَ بالذِّھنِ لایکونُ إلا عرضاً۔ (دستور العلماء ۲/۱۲۳۔کتاب التعریفات:۱۲۱) سفسطہ: (منطقی مغالَطہ) وہ قِیاس ہے جو وہمیات سے مرکب ہو، جس سے خَصم کو مغالطہ دینا اور خاموش کرنا مقصود ہو، جیسے: جَوہر ذہن میں پایا جاتا ہے، اور ہر ذہن میں موجود چیز ذہن کے سہارے کی محتاج ہے؛ لہٰذا جَوہر قائم بالذہن (عرض) ہے۔ اِس قیاس کے صغریٰ میں مغالطہ ہے؛ کیوں کہ ذہن میں پائی جانے والی