دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الباء البَابُ: باب الکاف کے تحت ’’کتاب‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ البَاطِل: مَا لاَیَکونُ صَحیحاً بأَصْلِہٖ۔ الفَاسِدُ: مَا یَکونُ صَحیحاً بأَصلِہِ لا بِوصْفِہِ۔(دستور العلماء ۱/۲۶۲) باطل: وہ چیز جو اصلاً (ذات کے اعتبار سے)ہی صحیح نہ ہو۔ فاسد: وہ چیز جو اصلاً صحیح ہو؛ لیکن وصفاً صحیح نہ ہو۔ اصلِ شیٔ میں نقصان کو ’’بُطلان‘‘ سے، اور وصفِ شیٔ میں نقصان کو ’’فساد‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ البُطْلانُ: (فيْ العِباداتِ) عَدمُ سُقوطِ القَضائِ بِالفِعْلِ، وَفيْ عُقودِ المُعامَلاتِ: تَخلُّفُ الأَحکامِ عَنہا، وَخُروجُہَا عنْ کَونِہا أَسْباباً مُفیْدَۃً لِلأَحکامِ، عَلیٰ مُقَابَلۃَ الصِّحَّۃِ۔(دستور العلماء۱/۲۸۸) بُطلان: عبادات کے باطل ہونے کے معنیٰ: عمل کرنے کے باوجود فرمانِ الٰہی کا ساقط نہ ہونا۔ عقد کے باطل ہونے کے معنیٰ: احکامِ عقد کا قول وقرار کے پیچھے رہ جانا، اورعقود کا احکامِ عقد (ملکیت وغیرہ) کو ثابت کرنے والے اسباب ہونے سے نکل جانا۔ (یعنی باوجود قول وقرار کے خرید وفروخت کے احکام نافذ نہ ہوں )۔ بالضَّرُوْرَۃِ:باب النون کے تحت ’’نظری‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔