دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
التَّسَامُحُ: (فيْ عرْفِ العُلمَائِ) اِستِعمَالُ اللَّفْظِ فيْ غَیرِ حَقیقتِہِ بِلاقَصْدِ عَلاقَۃٍ مَقبُولَۃٍ ولانَصْبِ قَرینَۃٍ دالَّۃٍ عَلیْہِ، اعتِمَاداً عَلیٰ ظُہوْرِ المعنیٰ فيْ ذلکَ المَقامِ؛ فوجود العَلاقۃِ یمنع التَّسامُح۔ (کشاف ۲/۳۳۱، التعریفات الفقہیۃ:۵۸) تسامح: (عُلَما کے عرف میں )کسی لفظ کو معنیٔ غیر حقیقی میں استعمال کرنا، اِس اعتماد پر کہ یہاں اِس کے معنیٰ واضح ہے، اِسی بنا پر متکلم اُس کے مشہور علاقے کو خاطر میں نہیں لاتااور نہ ہی کوئی قرینہ بھی رکھتا ہے جو معنیٔ غیر حقیقی پر دال ہو، (حالاں کہ لفظ کو معنیٔ غیر حقیقی میں استعمال کرتے وقت قرینے کا ہونا ضروری ہوتا ہے)۔ ملحوظہ: اگر ایسے موقع پر متکلم معنیٔ غیر حقیقی پر دلالت کرنے والا کوئی قرینہ رکھے، تو تسامُح نہ کہلائے گا۔ التَّسَاوِي: باب النون کے تحت ’’نِسبِ اربعہ‘‘ کے ضِمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ التَّسَاہُلُ: في العبارۃِ، أدائُ اللفظِ بحیثُ لایدُلُّ علی المرادِ دلالۃً صریحۃً۔ (کتاب التعریفات:۵۸/ التعریفات الفقہیۃ:۵۶) تساہل فی العبارت: عبارت میں ایسے لفظ کو استعمال کرناجو مراد پر صراحتاً دلالت نہ کرتا ہو۔ التَّسْبِیْحُ: تَنزیْہُ الحَقِّ عنْ نَقائِصِ الإمْکانِ وَالحُدوثِ۔ (دستور العلماء ۱/۳۳۵) تسبیح: حدوث واِمکان کے ہر عیب ونُقص سے باری تعالیٰ کی تقدیس وپاکی بیان کرنا۔