دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الفاء الفاسد: باب الباء کے تحت ’’باطل‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الفاصلۃُ: باب الواو کے تحت ’’وزنِ شعری‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الفائُ الفصیحۃ: ھیَ الفائُ الدَّاخلۃُ عَلیٰ جَزائِ الشَّرطِ المَحذوفِ، فَھيَ تُفصِحُ عَن شَرطِھا وتُظھِرُ،(کقولہ تعالیٰ: فإذا ہم بالساہرۃ۔[النازعات:۱۳]) (دستور۳/۱۳) فائے فصیحہ: (مرادِ متکلم کوظاہر کرنے والی) وہ فاء ہے جو شرطِ محذوف کی جزاء پر داخل ہو، اپنی شرط کو واضح اور ظاہر کرتی ہے،(جیسے باریٰ تعالیٰ کے فرمان: جو لوگ قیامت کو مُستبعَد کہتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ، ہم کو کچھ مشکل نہیں ؛ بلکہ ’’وہ بس ایک ہی سخت آواز ہوگی جس سے سب لوگ فوراً ہی میدان میں آموجود ہوں گے‘‘۔ اِس آیت میں فائے فصیحہ اور شرط مقدر ہے، یعنی: إذا نفخ في الصور شرط ہے، ترکیب یہ ہے: إذا مفاجاتیہ، ہم مبتدا، بالساحرۃ کائنون محذوف کے متعلق ہوکر خبر، مبتدا اپنی خبر سے مل کر شرطِ محذوف کی جزا، شرط اپنی جزا سے مل کر جملہ شرطیہ جزائیہ ہوا۔ الفتاویٰ: باب الشین کے تحت ’’شرح‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ فَحوَی الکلام: باب المیم کے تحت ’’مفہومِ موافق‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الفرْد: باب الشین کے تحت ’’شعر‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔