دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الذال أقْسَامُ الإطنَابِ کثِیْرۃٌ: منْھَا: ذِکرُ الخَاصِّ بعدَ العَامِّ: کقَوْلہِ تَعالیٰ: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الوُسْطٰی}[البقرۃ:۲۳۸]۔ وفائِدتُہُ: التَّنبیْہُ عَلیٰ فَضْلِ الخَاصِّ، حَتّٰی کأَنَّہُ لِفَضْلِہِ ورَفعتِہِ جُزْئٌ آخَرُ مُغایِرٌ لمَا قبْلَہُ۔(جواہر البلاغۃ:۱۴۲) اِطناب: (مخصوص فائدے کے لیے مطلب سے زیادہ الفاظ لانا)، اِس کی بہت ساری قِسمیں ہیں : اُن میں سے ذکر الخاص بعد العام اور ذکر العام بعد الخاص بھی ہے۔ ذکر الخاص بعد العام: لفظِ عام کے بعد خاص کو ذکر کرنا ، جیسے: باری تعالیٰ کا قول: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الوُسْطٰی} محافَظت کرو سب نمازوں کی (عموماً)، اور درمیان والی نماز کی (خصوصاً)؛ اِس صنعت کا فائدہ: مخاطب کو خاص کے کمال پر متنبہ کرنا ہے، کہ خاص اپنی فضیلت اور بلندیٔ مرتبہ کی بنا پر گویا اپنے ما قبل (لفظ عام) کے عِلاوہ مستقل جزء ہے(۱)۔ ذِکرُ العَامِّ بَعدَ الخَاصِّ: کقَولِہٖ تَعالیٰ: {رَبِّ اغْفِرْلِيْ (۱) عطف کے موقع پر اس کو عطف الخاص علی العام سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔ عطف الخاص علی العام: معطوف کا ایسے معطوف علیہ پر عطف کرنا کہ وہ معطوف علیہ اُس معطوف کے معنیٰ کو بھی شامل ہو، جیسے: ’’والصَّلاَۃُ علَی مُحمَّدٍ وَآلہِ وَأصحابِہِ‘‘کے اندر لفظِ ’’ آلْ‘‘ سے ’’اَتباع‘‘ مراد لیں تو صحابہ خود اُس میں داخل ہو گئے۔ (مشکل ص: ۳۱۵)