دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
پیش لفظ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَالعَاقِبَۃُ لِلمُتَّقِینَ۔ أما بعد! علم کی اہمیَّت فرمانِ الٰہی: {ھَلْ یَستَوِي الَّذِینَ یَعلَمُونَ وَالَّذِینَ لاَیَعلَمُونَ} کیا علم والے اور جہل والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ سے، نیز مدنی کریم ا کے فرمان: ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلمٍ‘‘: علم کو طلب کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، وغیرہ احادیث سے بہ خوبی واضح ہے؛ کیوں کہ تمام لوگوں پر دین کا سمجھنا اور دینیات پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ دینی علم کا مَنبَع وسرچشمہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ ہیں ، عُلَماوصُلحائے امت نے اپنے قیمتی اوقات قرآن وحدیث کی حفاظت اور اُن کی ترویج وشاعت کے لیے صرف فرمائے ہیں ؛ چنانچہ جمعِ قرآن کی سعادت صحابہ ث کے حصے میں آئی، تدوینِ حدیث کا سہرا تابعین وتبعِ تابعین اور محدِّثین کے سر بندھا، احکامِ شرعیہ کا استنباط اور اجتہاد کا مشکل ترین اور اہم کام وُکلائے اسلام مجتہدینِ کرام اور فقہاء کے حوالے ہوا، عقائدِ اسلام کے تعلُّق سے شکوک وشبہات پیدا کیے گئے تو متکلمین کا گروہ میدان میں آکھڑا ہوا۔ حفاظتِ اداء ولہجے کے لیے مجوِّدین وقرَّاء، اور قواعدِ عربیت کے لیے نُحات وصَرفیِّین، اور لغت کے حوالے سے لُغویین کی جماعتیں وجود میں آئیں ۔ الغرض! قرآن وحدیث کے سینے سے کئی علوم نکلے، اور اُنھوں نے مستقل فنون کی شکل اختیار کرلی۔ اور یہی وجہ ہوئی کہ عُلَما نے قرآن وحدیث کے الفاظ کو کما حقَّہٗ سمجھنے کے لیے الفاظِ مفردہ ومرکبہ کے آٹھ اُصولی علوم کا جاننا ضروری قرار دیا، جنھیں ’’علومِ عربیت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ صاحبِ کشاف: علامہ محمد بن علی تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں : اعلمْ أنّ علمَ العربیَّۃِ المسمَّی بعلمِ الأدبِ: علمٌ یحترزُ عن الخللِ في کلامِ العربِ، لفظاً أوْکتابۃً؛ وینقسمُ علی ماصرّحوا بہِ إلی اثنَي عشَرَ قسْماً: منہا: أصولٌ، وہيَ العُمدۃُ في ذٰلکَ الاحترازِ، ومنہا: فروعٌ: إلخ۔۔ علمِ عربیت وہ علم ہے جس سے کلامِ عرب میں لفظی یاتحریری غلطی سے محفوظ رہا جائے، اور علمِ عربیت میں خطائے لفظی وترکیبی سے حفاظت کے لیے بارہ علوم ہیں ، جن میں سے بعض اصولی ہیں اور بعض فروعی؛ علمِ اصولی: علمِ لغت، علمِ صرف، علمِ اشتقاق، علمِ نحو، علمِ معانی، علمِ بیان، علمِ عروض اور علمِ قافیہ ہیں ۔ مزید برآں علامہ موصوف علومِ مدوَّنہ (نحو، صَرف، منطق اور فلسفہ وغیرہ) پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے