دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
باب الضاد الضابِطَۃُ: باب القاف کے تحت ’’قاعدہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الضبط: (في الاصطلاح): اِسْتِماعُ الکلامِ کما یَحِقُّ سَماعُہٗ، ثُمَّ فَھْمُ معناہٗ الَّذي أُریدَ بہِ، ثم حِفظُہٗ بِبَذلِ مَجھودِہِ، والثباتُ علیہِ بِمذاکرتِہٖ إلیٰ حینَ أدائِہٖ إلیٰ غیرِہٖ۔ (کتاب التعریفات بیروت:ص:۹۸) ضبط: کلام کو دھیان اور توجُّہ سے کما حقَّہٗ سننا، پھر اُس کے معنیٔ مرادی (نتائج) کو اَخذ کرنا، پھر پوری کوشش سے اُس کو محفوظ کرلینا اور اُس کلام کے یاد کرنے اور برابر مذاکرہ کرتے رہنا یہاں تک کہ اُس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔ فائدہ: ضَبَطَ: ضَبَطَہُ ن ض سے ہے۔ ضَبَطْنَا الکِتَابَ تصحیح کرنا، اعراب لگانا۔ الضَّربُ: باب الشین کے تحت ’’شعر‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الضَّرُوْرَۃُ: اِمْتِنَاعُ انْفِکاکِ شَيْئٍ (أي نِسْبَۃٍ) عَنْ آخَرَ (أي مَوضُوْعٍ) عَقْلاً، فیُقالُ: نِسْبَۃُ الحَیَوانِ إلَی الإنْسَانِ مَثَلاً ضَرُوْرِیَّۃٌ، أيْ مُمْتَنِعَۃُ الانْفِکاکِ یَعنِيْ أنَّ العَقْل یحکم بامْتِنَاعِ انْفکاکِ الحَیَوانِ عنْ الإنْسَانِ، فتَکونُ تِلکَ النِّسْبَۃُ دائمَۃً ألبَتَّۃَ؛ فالدَّوَامُ أعَمُّ مِنْ الضَّرُوْرَۃِ؛ لأنَّ کلَّ ضَرُورِيٍّ دائِمٌ، ولیْسَ کلُّ دائِمٍ ضَرُورِیًّا۔ (دستور العلماء ۲/۱۹۰) ضرورت: محمول کی نسبت کا موضوع سے جدا ہونا عقلاًمحال ہو، جیسے (الإنسانُ حیَوانٌ میں )کہا جائے کہ: حیوانیت کی جو نسبت انسان کی طرف ہو