دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
ترضِّی و ترحُّم مستحب ہے۔ پس رضي اللّٰہ عنہ، رحمہ اللّٰہ یا اِس جیسے الفاظ (بہ طورِ دعا) کہے جاسکتے ہیں ۔ ہاں ! بعضے حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ:رضي اللّٰہ صحابہ کے ساتھ مخصوص ہے ،اور اُن کے عِلاوہ تمام لوگوں پر صرف رحمہ اللّٰہ کہا جائے گا، یہ بات ٹھیک نہیں ہے، اور نہ تو اِس پر اتفاق ہے؛ بلکہ صحیح قول -جس پر جمہور متفق ہیں - پہلا ہے جس کے دلائل بے شمار ہیں ۔ التَّرْکِیْبُ: جمعُ الحروفِ البَسیطَۃِ وَنظمُہا لِتَکونَ کلمۃً۔ (کتاب التعریفات:۵۸) ترکیب:حروفِ بسیطہ (غیر مرکبہ)کو جوڑنا اور ترتیب دینا؛ تاکہ ایک کلمہ ہوجائیں ۔ التَّسَامُحُ: ہوَ أنْ لایُعلمَ الغرضُ من الکلام، وَیَحتاجُ في فہمِہٖ إلیٰ تقدیرِ لفظٍ آخرَ، (کتاب التعریفات:۵۹)، نحوقول صاحب المنار: والأدائُ أنْواعٌ: کامِل، وقَاصِر، ومَا ہُوَ شَبِیہٌ بالقَضاء؛ قَال الشَّارِح: وفِي ہٰذا التَّقسِیْم مُسَامَحَۃ؛ لأنَّ الأقْسَام لاتَقَابُل فیمَا بَینَہا، وَیَنبَغِي أنْ یقوْل: والأدَائُ أنْوَاع: أدَاء مَحْضٌ -وہوَ نَوعَان: کامِل، وقاصِر-؛ وَأدائٌ ہوَ شَبیْہٌ بالقَضَاء۔(نورالأنوارص:۳۶) تسامح: متکلم کے کلام کا مطلب صاف معلوم نہ ہو، اور کلام کو سمجھنے کے لیے دوسرے لفظ کو مقدَّر ماننا ضروری ہو، جیسے اوپر کی مثال میں أدَاء مَحْضٌ -وہوَ نَوعَان: کو ماننا ضروری ہے۔