دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
شک: نسبتِ خبری کا وہ علم جس میں ذہن نفی واثبات میں دائر ہو، یعنی دونوں پہلو برابر ہوں ( کہ ذہن کسی ایک کا فیصلہ نہ کر پائے)۔ الوَہْمُ: تصوُّر النسبۃِ معَ رجحان جانبِ مخالفِہا، فہوَ الإدراکُ المرجوحُ۔ (أیضاً) وہم: نسبتِ خبری میں جانبِ راجح کے بالمقابل دل میں آنے والا (مرجوح) خَیال اور احتمال۔ ملاحظہ:الحاصل! تردُّد کے بغیر صرف حصولِ صورۃ فی الذہن ہوتو ’’تخییل‘‘ ہے، حصولِ صورۃ کے بعد اگر تردُّد واقع ہواور جانبین مساوی ہوتو وہ ’’شک‘‘ ہے، اور اگر مساوی نہ ہوتو جانبِ راجح کو ’’ظن غالب‘‘ اور مرجوح کو ’’وہم‘‘ کہتے ہیں ، جیسے: احمدکے حاجی ہونے کے بارے میں محض خیال آیا، یہ ’’تخییل‘‘ ہے، پھر ذہن اُس کے حاجی ہونے اور حاجی نہ ہونے کے بارے میں متردد ہوگیا یہ ’’شک‘‘ ہے، اس کے بعد کسی قرینے سے اُس کے حاجی ہونے کی جہت راجح ہوگئی تو وہ ’’ظن غالب‘‘ ہے، اور حاجی نہ ہونے کی جہت ’’وہم‘‘ کہلائے گی۔ التَّدَاخُلُ: عبارۃٌ عنْ دخُولِ شيئٍ فيْ شيئٍ آخرَ بلازِیادَۃِ حجمٍ ومِقْدارٍ۔ (کتاب التعریفات:۴۰ب) تداخل: ایک شیٔ کا دوسری میں مل کر ایسا جذب ہونا کہ دونوں اشارۂ حِسِّیہ میں بھی متحد ہوجائیں اور حجم میں بھی، (یعنی دونوں کی مجموعی جسامت وہی رہے جو ایک کی تھی)۔ الحُلُوْلُ: ہوَ اِختصاصُ شيئٍ بشيئٍ بحَیثُ تَکونُ الإشَارۃُ