دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
تحدِّی:مُدّعِی کا اپنے دعوے پر پیش کردہ دلیل کے خلاف -خصم سے- دلیل کا مطالبہ کرنا، (جیسے: باری تعالیٰ نے مشرکین سے بہ طور تحدی فرمایا: {وَإنْ کُنْتُمْ فِيْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَاعَلیٰ عَبْدِنَا فَأتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِن مِّثْلِہ}اور اگر تم لوگ کچھ خلجان میں ہو اس کتاب کی نسبت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اپنے بندۂ خاص پر تو اچھا پھر تم بنالاؤ ایک محدود ٹکڑا جو اس کاہم پلہ ہو)۔ التَّحریرُ: فيْ اللُّغۃِ: اِکتِتَابُ مَا لَیسَ فِیہِ حَشوٌ وَزِیادَۃٌ۔ وَفِي العُرفِ: تخلِیۃُ الکلامِ عن الحَشوِ وَالتَّطوِیلِ۔ (دستور العلماء۱/۳۱۸) تحریر: لغوی معنیٰ ایسے مضمون کو لکھوانا جس میں حَشو وزِیادت نہ ہو۔ اصطلاحی معنیٰ: کلام کو فضول طُول دینے والی باتوں سے خالی کرنا، (جیسے صاحب ’’تہذیب المنطق‘‘ نے اپنے رسالے کے بابت ’’في تحریر المنطق والکلام‘‘ کہا ہے نہ کہ ’’في تقریر المنطق والکلام‘‘، اور اشارہ کیا ہے کہ میری یہ کتاب حشو وزوائد سے خالی ہے)۔حشو وزیادت کی تفصیل باب الالف کے تحت ’’ایجاز‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ تَحْرِیفُ الکَلامِ: اِسی باب کے تحت ’’تاویل‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ التَّحْقِیْقُ: إثباتُ المسئلَۃِ بدلیلِہا۔ (کتاب التعریفات:۵۵) تحقیق: مسئلے کو دلیل کے ذریعے پختہ واضح کرنا، (یعنی پختہ ومدلَّل کلام)۔ التَّخْرِیْجُ: (ہوَ عندَ النُّحاۃِ) إِیجادُ وَجہٍ مُناسِبٍ للمَسئَلَۃِ، أَوْ تَعلِیلٍ یُخرجُہَا مِمَّا فِیہَا مِنْ إِشْکالٍ۔ (موسوعۃ:۲۲۱)