دستور الطلباء |
لمی و فن |
نکال لاتا ہے، جیسے پرندکو انڈے سے نکالتا ہے۔ تَحْرِیْفُ الکَلامِ: تغییرُہٗ عن مواضعِہ۔ قالَ السیِّدُ: ہوَ تغیِیْرُ اللفظِ دونَ المعنیٰ۔ قال الراغبُ: ہُوَ أنْ تجعلَہٗ علیٰ حرفٍ من الاحتمالاتِ یُمکِنُ حملُہ علی الوجہینِ،کما حرَّفُوا النصاریٰ قولہ في الإنجیل:’’عیسیٰ نَبِيٌّ وأنا ولَّدتُہ‘‘ فجعلوا الأول ’’بني‘‘ وخفَّفُوا اللام في الثاني۔(التعریفات الفقہیۃ:۵۲، خصائل نبوي) تحریفِ کلام: کلام کو ردّوبدل کرکے اصل سے ہٹانا۔ بہ قول علامہ جرجانیؒ: معنیٰ میں تبدیلی کیے بغیر لفظ کو بدلنا۔ بہ قول امام راغب اَصفہانیؒ: لفظ کے احتمالات میں سے کسی ایک احتمال (جانبِ معنیٰ) کو معیَّن کر لینا جس کو دو صورتوں پر محمول کرنا ممکن ہو،جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ں کے بارے میں باری تعالیٰ کے فرمان میں تحریف کردی ہے، کہ ’’نبی‘‘ کے بہ جائے ’’بنی‘‘ کردیا، ’’ولَّدتُہ‘‘ کے بہ جائے ’’ولَدْتُہ‘‘ کردیا۔ ملحوظہ: تأویل و تحریف کا فرق: جو صَرف عنِ الظَّاہِرِ بہ ضرورتِ صارف قطعی ہو اور موافق قواعدِ عربیہ و شرعیہ ہو وہ تاویل ہے؛ ورنہ تحریف۔ (تحفۃ العلماء ۲/۲۱۰) التَّبایُنُ: باب النون کے تحت ’’نِسبِ اربعہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ التَّجْرِبِیَّاتُ: باب المیم کے تحت ’’مقدمات یقینیہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ التَّحَدِّي: طَلبُ المُعارَضۃِ عَلیٰ شَاہدِ دَعواہٗ۔(دستور العلماء ۱/۳۱۹)