دستور الطلباء |
لمی و فن |
میں سدِّ راہ بنی ہوئی ہے، اور کتبِ درسِ نظامی کے مضامین ہمارے لیے دشوار سے دشوار تر ہوتے جارہے ہیں ، جس ایک وجہ یہ بھی ہوئی ہے کہ، جس ترتیب سے علوم وفنون کو اہمیَّت کے ساتھ مکمل حاصل کرنا چاہیے تھا ہم نے حاصل نہ کیا، حالاں کہ کوئی بھی فن مشکل نہیں ہے۔ بہ قول حضرت تھانویؒ: ’’کوئی درسی فن مشکل نہیں اگر ترتیب سے ہو، اور کوئی فن آسان نہیں اگر بلا ترتیب ہو، بس یہ چیز مفقود ہے مدرِّسین اور متعلِّمین دونوں میں ‘‘۔ (استاذ شاگرد کے حقوق:۱۰۴) دوسری وجہ یہ ہوئی ہے کہ، فنی کتابوں میں استعمال ہونے والی اصطلاحات مختلف علوم وفنون سے متعلِّق ہیں ، اور علوم وفنون آپس میں بے انتہا مربوط ہیں ؛ کیوں کہ العِلمُ واحدٌ ایک مسلَّمہ حقیقت ہے۔ دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی طالبِ علم کسی فن کا رَسیا ہے تو دوسرے فن سے بہ قدرِ ضرورت بھی رشتہ نہیں ہے؛ حالاں کہ ہر فن کی وہ اصطلاحات جو دیگر کتب وفنون میں مستعمَل ہیں اُن کو ہر وقت مستحضَر رکھنا ضروری ہے۔ چناں چہ مخلِصین کے خلوص، مفکِّرین کی فکریں اور بڑوں کی آہِ سحر گاہی کے نتیجے میں بفضلہ تعالیٰ مختلف باغیچوں کے رنگ بہ رنگ خوش بُودار پھولوں کا فنونِ مختلِفہ متداوِلہ کی ضروری اصطلاحات پر مشتمل حَسین گلدستہ تیار ہوا۔ دوستو! جوانی ڈھلتی چھاؤں ہے اور زندگی مثلِ برف ہے۔ کل نہیں ، شام کس نے دیکھی ہے!!! کیا ہم چھوٹی کمزور چیونٹی سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے! کہ وہ بھی اپنی بھلائی بُرائی کو سمجھتی ہے، اور موسمِ سرما کے لیے موسمِ گرما ہی میں ذخیرہ اندوزی کر لیتی ہے، شاعر کہتا ہے: یہی ہے وقت مستقبل کے بننے اور سنورنے کا نہیں آئیں گے پھر یہ لوٹ کر اوقات اے ساتھی!