دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
ہوگا؛ بلکہ بہ قول شیخ محمود حسن اجمیریؒ: ’’ہر مَبحث کے شروع میں مبتدیوں کے سامنے جب غیر مانوس الفاظ ومضامین اور اجنبی محاوَرات واصطلاحات آتے ہیں ، تو اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے طلبہ اُس (حکمت) فن سے مایوس ہوکر یاتو بالکل پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں ، یا پھر برائے نام جماعت میں محض حاضری کے لیے بیٹھ جاتے ہیں ‘‘۔ (انتہیٰ کلامہ) زیرِ نظر کتاب ’’دَستور الطُّلَباء‘‘(۱) اِسی ضرورت کی ایک کڑی ہے،اِس کاوش کی ابتدا ایک طویل فہرست سے ہوئی تھی، جس میں اُن الفاظ کو یکجاکرنے کی کوشش کی گئی جو مختلف وجوہات سے مجہول الحقیقت ہوچکے ہیں ۔ مذکورہ فہرست دو ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل تھی، پھر مشیرِ محترم حضرت مفتی ابوبکر صاحب زید مجدہ سے مشورہ کے بعد ایک میزان طے کیا کہ: ’’اِس کتاب میں صرف اُنھیں الفاظ کو لیا جائے جو تعریفات، دلائل،اَمثلہ اور اعتراضات وجوابات کے مواقع میں مستعمل ہیں ‘‘۔ چناں چہ اب اِس کتاب میں بہ کثرت استعمال ہونے والی ضروری اصطلاحات جمع ہیں ، جو ان شاء اﷲ طالبینِ علومِ دینیہ کے علمی سفر میں مُعِین ہوں گی۔ اِس میں ایسے مقدمات ہیں جن کو محفوظ کرنے سے مطالعے میں جان اور پختگی پیدا ہوتی ہے، یہی وہ اصطلاحات ہیں جن کو ہم اسلاف کے ذخیرۂ علم میں ، کتبِ درسیہ کے متون، شروح اور تعلیقات وحواشی میں ، نیز حضراتِ اساتذۂ کرام کے حلقہائے درس میں بارہا پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں ۔ ہائے افسوس! ہماری اُن سے ناواقفیت کتبِ درسِ نظامی سے فائدہ اُٹھانے (۱)طُلَبَاء:طَلِیبٌ کی جمع ہے، جس کے معنیٰ ہے: زیادہ مانگنے والا،طلب کرنے والا۔