دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
جب ایک طالبِ علم اور عالمِ دین کے لیے علومِ عربیت اور علومِ مدوَّنہ کا جاننا ضروری ٹھہرا تو اُس کے لیے ہر علم وفن کی اصطلاحات کو جاننا بھی بے حد ضروری ہے؛ تاکہ اُس فن کی تقریر کماحقہٗ سمجھ سکے؛ بہ ایں وجہ تمام علوم وفنون میں اہلِ فن کی مخصوص اصطلاحات ذکر کی گئی ہیں ، جن کو جاننے سے معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی فن سے اچھی طرح مناسَبت پیدا کر لیتا ہے، اور اُن اصطلاحات سے بے خبر وادیٔ تیہ میں بھٹکتا رہتا ہے۔ خود مُعلِّمِ انسانیت ا کا فرمان ہے: نحنُ معاشرَ الأنبیائِ، أُمرْنا أنْ نکلِّمَ الناسَ علَی قدرِ عقولِہمْ۔(احیاء العلوم ،کتاب العلم) کہ ہم جماعتِ انبیاء کو لوگوں کی عقلوں کے مطابق بات کرنے کا حکم ہے، بہ ایں وجہ تمام علوم میں اہلِ فن کی مخصوص اصطلاحات ذکر کی جاتی ہیں ؛تاکہ ان کی باتیں سمجھی جاسکیں ۔ لہٰذا علوم وفنون کو حاصل کرنے کے لیے ایسے مقدَّمات کا جاننا ضروری ہے جو حصولِ مقاصد میں مُعِین ہوں ۔ حضرت تھانویؒ اِن مقدَّمات کی اہمیَّت کو یوں تحریر فرماتے ہیں : ’’قاعدہ یہی ہے کہ مقاصد سے زیادہ مقدَّمات کا اہتمام کیا جاتا ہے تب مقاصد حاصل ہوتے ہیں ، چناں چہ نحو، صَرف میں اِس قدر محنت کی جاتی ہے کہ علومِ مقصودہ میں اُس کی آدھی محنت بھی نہیں کی جاتی‘‘۔ اِسی ضرورت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے متقدِّمین نے ہر فن پر تصانیف کا ایسا ذخیرہ تیار فرمایا ہے کہ صدیاں بِت گئیں ، ابھی تک متقدِّمین کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچ رہی ہے، اور ہم اُن سے برابر مستفید ہو رہے ہیں ۔ الغرض! قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے علومِ عربیت ، علومِ مدوَّنہ اور اُن کے مقدَّمات کو جاننا نہایت ضروری ہے، جن کے بغیر ہمارا علمی سفر بے زادِراہ کے مترادِف