دستور الطلباء |
لمی و فن |
سے ہے۔ اِنھیں فنون کی اہمیَّت بہ قول علامہ کاتب چِلپی ملاحظہ فرمائیں : ومن شروط العلم أن لایدع فنّاً من فنونِ العلمِ إلا وینظر فیہِ نظراً یطلع بہ علی غایتہ ومقصدہ وطریقتہ۔ کہ فنون میں سے ہر فن کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کرنا ضروری ہے، جس سے ہر فن کی غرض وغایت، مقصد اور طریقہ معلوم ہوجائے۔ دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں : اعلمْ! أنّ العلم وإن کان واحداً، وحقیقتہ واحدۃ؛ إلا أنہ ینقسم إلی أقسامٍ کثیرۃ من جہاتٍ مختلفۃٍ۔ (کشف الظنون:۱،۱۱) علم اور اُس کی حقیقت تو ایک ہی ہے؛ لیکن مختلف حیثیتوں سے کئی قسمیں بن جاتی ہیں ۔ لہٰذا ایک علم وکتاب کے بعد دوسرے علم وکتاب کی طرف متوجَّہ ہونا چاہیے، اگرچہ یہ عمل باعثِ مشقَّت ہے؛ لیکن بہ قول علامہ چلپیؒ: اعلمْ! أنّہ علی کلِّ خیرٍ مانعٌ، وعلیٰ العلمِ موانعُ، ہر خیر کا کوئی ایک مانع ہوتا ہے، اور علم بھی ایک بڑی خیر ہے؛ لہٰذا اِس کے بھی کئی موانع ہیں ۔ حصول میں جس طرح مشقتیں زیادہ ہیں ، اِس کے فضائل بھی بے شمار ہیں : حضرت مُعاذ بن جبل ص سے مروی ہے: قال رسول اللّٰہا: تعلَّموا العلمَ، فإن تعلُّمَہ للّٰہِ تعالی خَشیۃٌ، وطلبہُ عبادۃٌ، ومُذاکرَتُہ تَسبیحٌ، والبَحثُ عنہُ جِہادٌ، وتَعلیمُہُ لمنْ لایَعلمُہ صَدقۃٌ، وبَذلُہ لأہْلہِ قُربَۃٌ؛ لأنَّہ مَعالمُ الحَلالِ والحَرامِ، ومَنارُ سبُلِ أہْلِ الجَنَّۃِ۔ (کشف الظنون۱/۱۸) ہاں ! کسی علم کے جمیع مسائل کا عالمِ فن کے ذِہن میں مستحضَر رہنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ فنی کتابوں اور اُس کے مسائل کے بہ کثرت مطالعے سے ذہن میں فن کا اِجمالی نقشہ حاصل ہو -جس کو مَلکہ بھی کہا جاتا ہے- یہ کافی ہے، کہ وہ عالم اُس مَلکے کی مُعاوَنت سے تفصیلی مسائل کو مستحضر کر سکے یا حاصل کر سکے؛ اگرچہ بالفعل وہ مسائل مستحضَر نہ ہوں ۔