دستور الطلباء |
لمی و فن |
فرماتے ہیں : اعلمْ أنَّ العلمائَ اختلفوا، فقیل: لایُشترط في کونِ الشخصِ عالماً بعلمٍ أنْ یعلمَہُ بالدلیلِ، وقیل: یشترطُ ذلکَ، حتی لوْ علِمَہُ بلاأخذِ دلیلٍ یسمَّی حاکیاً لاعالماً۔ بہ قول بعض: عالمِ فن اگر علمی مسائل کو بغیر دلائل کے حاصل کرے تو وہ فن کاناقل ہے عالم نہیں ہے۔ اِسی بات کو محقِّق عبدالحکیم نے حاشیۂ فوائدِ ضیائیہ میں اِس طرح تحریر فرمایا ہے: العلمُ عِبارۃٌ عن العلمِ بالمسائلِ المدلَّلۃِ: کہ علم تو در حقیقت مسائلِ مدلّلہ کے جاننے کا نام ہے؛ ورنہ نِرے مسائل کو حاصل کرنے والا ناقلِ محض ہے، عالم نہیں ۔ (انتہیٰ کلامہ) حضرت تھانویؒ سے ایک صاحب نے عرض کیا: کیا فلسفہ کار آمد چیز ہے؟ فرمایا: ’’ہاں عمقِ نظر اور دِقَّتِ فکر اِس سے پیدا ہوتی ہے۔ معقول وفلسفہ جس پر اعتقاد نہ ہو اور محض استعداد کے لیے پڑھایا جائے تو خدا کی نعمت ہے، اُن سے دینیات میں بہت مدد ملتی ہے، لطیف فرق اِن ہی سے سمجھ میں آتے ہیں ‘‘۔ معلوم ہوا کہ علومِ عربیت اور علومِ مدوّنہ کی اہمیَّت وافضلیت مسلَّمات کے قبیل