دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
بھی ثابت کیا جائے، جیسے یوں کہا جائے کہ: نبیذ حرام ہے؛ اِس لیے کہ شراب حرام ہے، اور شراب کے حرمت کی علت نشہ ہے، اور یہی علت نبیذ میں بھی پائی جاتی ہے۔ القِیَاسُ الاقْتِرانيْ: مَالایَکوْنُ عَیْنُ النَّتِیجَۃِ وَلاَنَقیضُہَا مَذکوْراً فیْہِ بالفِعْلِ، مِثلُ: العَالَمُ مُتغیِّرٌ، وکُلُّ مُتغیِّرٍ حَادِثٌ؛ فالعَالَمُ حادِثٌ۔(دستور العلماء۳/۷۷) قِیاسِ اقترانی: وہ قِیاس ہے جس میں نتیجہ یا نقیضِ نتیجہ (اپنی پوری ہیئت وترتیب کے ساتھ)قیاس میں موجود نہ ہو (بلکہ صرف اجزاء بغیر ترتیبِ نتیجہ کے مذکورہوں ، اور اُس میں لفظِ ’’لیکن‘‘ مذکور نہ ہو)، جیسے: دنیا تغیر پذیر ہے، ہر تغیر پذیر چیز حادث ہے؛ دنیا حادث ہے۔ القِیَاسُ الاسْتِثْنائِيُّ: مَایَکونُ عَینُ النَّتیجَۃِ أوْ نَقیْضُہَا مَذْکوْراً فیْہِ بالفِعْلِ، مِثْلُ: إنْ کانَ ہٰذَا إنْسَاناً کَانَ حَیَواناً؛ لٰکنَّہُ إنْسَانٌ، یَنتِجُ: إنَّہٗ حَیَوانٌ؛ أوْ لٰکنَّہُ لیْسَ بحَیَوانٍ، یَنتِجُ: إنَّہ لیْسَ بإنْسَانٍ۔ (دستور العلماء ۳/۷۷) (۱) قِیاسِ استثنائی: وہ قِیاس ہے جس میں نتیجہ یا نقیضِ نتیجہ اپنی پوری ہیئت اور اجزاء کے ساتھ قیاس میں موجود ہو، (اُس کا پہلا مقدمہ ہمیشہ شرطیہ ہوتا ہے اور مقدمتین کے درمیان لفظ ’’لیکن‘‘ آتا ہے) جیسے: اگر یہ انسان ہے تو حیوان ہے؛ (۱)القِیاس:ھو قول مؤلف من قضایا یلزم عنھا قول آخر بعد تسلیم تلک القضایا، فإن کان النتیجۃ أونقیضہا مذکورا فیہ یسمی استثنائیا، کقولنا: إن کان زید إنسانا کان حیوانا؛ لکنہ إنسان، ینتج: فھو حیوان، وإن لم یکن النتیجۃ ونقیضھا فیھا مذکورا یسمی اقترانیا، کقولک: زید إنسان، وکل إنسان حیوان، ینتج: زید حیوان۔ (مرقات)