دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
قِیاس: دو یا زائد قضیوں سے مرکب ایسا قول جن کے تسلیم کرنے سے خود بہ خود ایک نیا قضیہ ماننا پڑے، جیسے ہمارا قول: دنیا قابلِ تغیر ہے، اور ہر قابلِ تغیر چیز فانی ہے؛ پس یہ قول ایسے دو قضیوں سے مرکب ہے جن کو تسلیم کرنے سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ، دنیا فانی ہے۔ اِسی قِیاس کو قِیاسِ عقلی، قِیاسِ منطقی اور دلیل نام دیا جاتا ہے۔ التمثیل: ھوَ حُجَّۃٌ یَقعُ فیہِ بیانُ مُشارَکۃِ جزئيٍ لجُزئيٍ آخرَ فيْ علَّۃِ الحُکمِ، لیُثبَتَ ذلکَ الحُکمُ فيْ الجُزئيِّ الأوَّلِ، کمَا یُقالُ: النَّبیذُ حَرامٌ؛ لأنَّ الخَمرَ حرامٌ، وعلَّۃُ حرمتِہِ الاِسکارُ، وَھوَ مَوجودٌ فيْ النَّبیذِ۔ (دستور العلماء۱/۲۳۸) تمثیل: وہ حجت ہے جس میں کسی ایک جزئی کی دوسری جزئی کے ساتھ کسی حکمِ خاص کی علت میں باہم شرکت بیان کرنا؛ تاکہ دوسری جزئی کا حکم پہلی جزئی میں احوال کاجائزہ لیا گیا ہو۔ الاستقراء: ہوَ الحُجَّۃُ التِيْ یُستَدلُّ فِیہَا مِن اِستِقرائِ حکمِ الجُزئِیَّاتِ عَلیٰ حُکمِ کُلِّیْہَا؛ فإن کانَ الاستدلالُ فیہا من اِستقرائِ حکمِ جمیعِ الجزئیاتِ فالاِستقْرائُ تامٌّ، وإلاّ فناقص۔ (دستور العلماء ۱/۱۱۵) استقراء: وہ حجت ہے جس میں جزئیات کے احوال وکیفیات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہونے والے حکم کو پوری کلی کے لیے ثابت کیا گیا ہو۔ استقرائے تام: وہ استقراء ہے جس میں تمام جزئیات کے احوال کا جائزہ لیا گیا ہو، (جیسے: محدِّثین کا قول: الصحابۃُ کلہم عُدُولٌ)۔ استقرائے ناقص: وہ استقراء ہے جس میں بعض جزئیات کے