دستور الطلباء |
لمی و فن |
القِیاسُ اللُّغَويُّ: وہوَ تَعدیَۃُ الاسْمِ منْ مَوضَعٍ إلیٰ مَوضعٍ آخَرَ، کتَعدیۃِ اسْمِ الخَمْرِ إلیٰ سَائرِ الأشرِبۃِ المُحرَّمۃِ لعِلَّۃِ مُخامرَۃِ العَقلِ۔ قِیاسِ لغوی: وہ قِیاس ہے جس میں ایک اسم کو اپنی جگہ سے دوسری جگہ کی طرف کسی علتِ مشترکہ کی وجہ سے متعدِّی کرنا، جیسے: لفظِ خمر(انگوری شراب)، مخامرۃُ العقل کی علت کی وجہ سے تمام حرام شرابوں کے لیے بولا گیاہے۔ القِیاسُ الشِّبہيُّ: وہوَ تَعدیۃُ الحُکمِ مِنْ صُورَۃٍ إلیٰ صُورۃٍ بعِلۃِ المُشاکلَۃِ فيْ الصُّورَۃِ، کمَا یُقالُ فيْ القَعدَۃِ الأخِیرَۃِ: إنَّہا قَعدَۃٌ، فَلاتَکونُ فَرْضاً، کالقَعدَۃِ الأوْلیٰ۔ قِیاسِ شبہی: وہ قِیاس ہے جس میں مشاکَلت فی الصورۃ کی علت کی وجہ سے کسی ایک صورت کا حکم دوسری صورت کی طرف متعدی کیاجائے، جیسے کوئی شخص قعدۂ اخیرہ کی عدمِ فرضیت پر استدلال کرتے ہوئے کہے کہ: قعدۂ اخیرہ چوں کہ شکل وصورت میں قعدۂ اُولیٰ کے مانند ہے، اور قعدۂ اُولیٰ فرض نہیں ہے؛ لہٰذا قعدۂ اخیرہ بھی فرض نہیں !۔ القِیاسُ العَقْليُّ: (أي المَنطقِيُّ) وہوَ قَولٌ مُؤلَّفٌ مِنْ القَضَایا (أيْ الصُّغریٰ والکُبْریٰ) بحَیثُ مَتَی سَلَّمْنا لزِمَ منْہا قَولٌ آخَرُ، کما یُقالُ: العَالمُ مُتغیِّرٌ، وکلُّ مُتغیرٍ حادِثٌ؛ فالعَالمُ حادِثٌ۔ (حاشیۃ نورالأنوار:۸؛ أصول الشاشي) قِیاسِ عقلی: وہ قول ہے جو ایسے مقدمات سے مرکب ہو جن کے تسلیم کر لینے کے بعد ایک دوسرے قول کا تسلیم کرنا لازم آئے، جیسے: العالَم متغیرٌ، وکل