دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
قیاسِ جلی کے بہ نسبت قوی ہو تو اُس پر عمل کیا جاتا ہے، جیسے: سباعِ طیور کے جھوٹے کا پاک ہونا۔ الاسْتِحسَانُ: عُدوْلٌ فيْ مَسئَلۃٍ منْ مِثلِ مَاحُکمَ بہِ فيْ نَظائرِھَا إلیٰ خِلافِہٖ بِوجہٍ ھوَ أَقویٰ۔(منھاج الأصول بحوالۃ عون الکبیر) استحسان: فقیہ کا کسی جزئیہ میں حکم لگانے کے بابت اُس کے نظائر میں موجود قِیاسِ جلی کے موافق حکم سے اِعراض کرنا، کسی ایسی قوی جہت (قِیاسِ خفی) سے جو قِیاسِ جلی کے خلاف حکم کی متقاضی ہو(۱)۔ القِیاسُ: اعْلمْ أنَّ القِیاسَ عَلیٰ أرْبعَۃِ أنْواعٍ: [الشَّرعِيُّ، اللُّغَويُّ، الشِّبْہيُّ، العَقْليُّ المَنطقِيُّ] قِیاس کی چار قسمیں ہیں : قِیاسِ شرعی، قِیاسِ لغوی، قِیاسِ شبہی، قِیاسِ عقلی۔ القِیاسُ الشَّرعيُّ: وہوَ تَعدِیۃُ الحُکمِ مِنْ الأصْلِ إلَی الفَرعِ بعِلۃٍ مُتَّحدَۃٍ بینَہمَا۔ قِیاسِ شرعی: وہ قِیاس ہے جس میں کتاب اللہ، سنت رسول ا، یااجماع سے ثابت ہونے والے حکم کوکسی دوسرے جزئیہ کی طرف متعدی کرنا ایسی علت کی وجہ سے جو اُن دونوں میں پائی جاتی ہو،(جیسے: معاملات میں جہاں پر قدر مع الجنس کی علت پائی جائے وہاں کمی بیشی پر ربا کا حکم لگانا)۔ (۱)وقالَ السَّرَخسِي: القِیاسُ والاستِحسَانُ فيْ الحَقیْقۃِ قِیاسَانِ، أحَدُھمَا جَلِيٌّ، ضَعیفٌ أثرُہُ، فَسُمِّيَ قِیاساً؛ والآخَرُ خَفِيٌّ، قَوِيٌّ أثرُہُ فسُمِّيَ اسْتحسَاناً أيْ قِیاساً مُستَحسَناً، فالتَّرجِیْحُ بالأثَرِ لابِالخَفَائِ والظُّھوْرِ۔ (منھاج الأصول والمبسوط، بحوالۃ العون الکبیر: ۶۳)